کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 266
دونوں طریقے عند اللہ پکے باطل ہوں ۔ اس لیے کہ ان میں جمع بین النقیضین ہے ۔ کیونکہ ان کے اصول کی بنیاد ہی فساد پر رکھی گئی ہے۔ یہ بنیاد بغیر دلیل کے ان لوگوں کی اتباع ہے جنہیں [اپنے تئیں ] اپنی نجات کا پختہ یقین ہے۔ پس فرقہ مشائخہ یا امامیہ میں جو بھی اپنے مشائخ کی اتباع میں نجات کا پختہ یقین رکھتے ہیں ؛ان کا یہ عقیدہ بغیر علم اور دلیل کے ہے۔اس سے ان کے اقوال میں تناقض لازم آتا ہے۔ بخلاف ان اقوال کے جن کی بنیاد صحیح اصولوں پر رکھی گئی ہے ؛ ان میں کوئی تناقض نہیں پایا جاتا۔ تیسری وجہ:....رافضی مصنف نے جو مثال بیان کی ہے ؛ اور اس کو اصل بنا کر اس پر قیاس کیا ہے ؛ اس کے مطابق حکم لگانا ممتنع ہے۔ اس کہ دو آدمیوں میں سے کوئی ایک جب کہے گاکہ: کیا میرا راستہ پر امن ہے ‘ اور مجھے منزل تک پہنچا دے گا۔ اور دوسرا آدمی اس سے کہے : مجھے پتہ نہیں کہ کیا میرا راستہ پرامن ہے ؟ اور مجھے منزل تک پہنچائے گا یا نہیں ؟ ۔ یا پھر پہلا انسان ایسی بات کہے ؛ توعقلاً صرف اس آدمی کے قول کی بنا پر اس کی تصدیق نہیں کی جاسکتی ۔بلکہ اہل عقل کے نزدیک ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ یہ انسان[ اس پوچھنے والے کے لیے کوئی حیلہ گری کر رہا ہو]؛ تاکہ وہ اسے اپنے ساتھ لیکر چلے ‘ اور راستہ میں اسے قتل کردے اور اس کا مال و اسباب چھین لے۔ اوریہ بھی ممکن ہے کہ یہ انسان راستے کی حقیقت سے لاعلم ہو اسے راستہ کے خوف اوربد امنی کا کوئی پتہ ہی نہ ہو۔جب کہ دوسرا انسان سوال کرنے والے کیلئے کوئی گارنٹی نہیں دیتا۔ بلکہ اسے خود غور و فکر کرنے کے لیے کہتا ہے۔پس ایسے موقع پر انسان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ خود سوچ وبچار کرے کہ اسے کون سے راستہ پر چلنا چاہیے؟ کیا ان دونوں راستوں میں سے ہی کوئی ایک سیدھا راستہ ہے یا ان کے علاوہ کوئی تیسرا راستہ بھی ہے ؟ اگر ان دونوں میں سے ہر ایک انسان یہ دعوی کرتا کہ میرا راستہ پر امن ہے ‘ او رہمیں منزل تک پہنچائے گا [توپھر چاہیے تو یہ تھا کہ] ان دونوں کی بغیر کسی توقف کے تصدیق کی جائے ۔ حالانکہ [اس سے لازم آتا ہے کہ ]ان میں سے ہر ایک جاہل اور دروغ گو ہے۔[یہی حال شیعہ مصنف کاہے] ۔مشتبہ مسائل میں اس کا دعوی ہے کہ ہمارا قول ہی اس میں درست اور حق پرہے۔اور میں دوٹوک طور پر یہ کہہ سکتا ہوں ۔ اس لیے میں ان دونوں گروہوں کی نسبت اتباع کا زیادہ حقدار ہوں جو مسائل میں غور وفکر کرتے ہیں ‘ اور پھر ان سے استدلال کرتے ہیں ۔تو پھر چاہیے تھا کہ یہ جھوٹے مشائخ جو اپنے مریدوں کے لیے جنت کی ضمانت دیتے ہیں ۔اورانہیں آسرا دلاتے ہیں کہ ان کے لیے آخرت میں ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی۔ اوریہ کہ جو کوئی بھی ان سے محبت کرے گا وہ جنت میں داخل ہوجائے گا؛ اورجو کوئی انہیں مال دے گا ؛ وہ اس کے بدلے میں انہیں وہ حال دیں گے جس سے وہ اللہ ذو الجلال کے قریب ہوجائیں گے۔ پھر یہ لوگ ان لوگوں کی نسبت اتباع کے زیادہ حق دار ہوتے جو اہل علم و عدل اور سچائی کے پیکر ہیں ؛ اور کسی چیز کی ضمانت بھی نہیں دیتے سوائے اس چیز کی ضمانت کے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کرنے والوں کو دی ہے۔ اور پھر اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ ائمہ اسماعیلیہ جیسے معز اور حاکم ائمہ اثنا عشریہ کی نسبت اتباع کے زیادہ حق دار ہوں ۔اس لیے کہ یہ لوگ انثا عشریہ سے بڑھ کر غیب کا علم جاننے ‘ باطن شریعت کے کشف؛ اور اعلی درجات کے دعویدار ہیں ۔ یہ لوگ محرمات