کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 264
عدم موجودگی میں یا موت کے بعد پکارا جائے ‘ اور اس سے مدد مانگی جائے؛ اس سے اپنی حاجات طلب کی جائیں ؛[تو یہ کہاں کی توحید اور کیسادین ہے ؟]
یہ لوگ تو اپنے ائمہ کی اس طرح اطاعت کرتے ہیں انہیں جو مرضی میں آئے اس کا حکم دیتے ہیں اور جس چیزسے چاہتے ہیں روک دیتے ہیں ۔ گویا کہ یہ لوگ اپنے مردہ ائمہ کو اللہ تعالیٰ سے تشبیہ دیتے ہیں ؛ اور زندوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔ اس بناپر یہ لوگ ’لا إلہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ‘‘کلمہ توحید کی حقیقت سے خارج ہوجاتے ہیں ۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ توحید کی حقیقت یہ ہے کہ ہم صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اوراس کے سوا کسی کو نہ پکاریں اور نہ ہی کسی کا ڈرمحسوس کریں ؛ اور نہ ہی کسی کا خوف اس کے علاوہ ہو۔ اور صرف اسی پر بھروسہ کیا جائے۔ اور دین کو صرف اس کے لیے خالص کیا جائے کسی مخلوق کے لیے نہیں ۔ اور یہ کہ ہم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر انبیائے کرام علیہم السلام یا ملائکہ کو اپنا رب نہ بنائیں ؛ کجا کہ ائمہ اور مشائخ اور علماء اور بادشاہوں اور دیگر کو اپنا رب بناتے پھریں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم تک اس کے امر و نہی پہنچا دیے تھے۔ پس اب مخلوق میں سے کسی کی مطلق اطاعت نہیں ہوگی۔ اب اگر کسی شیخ کو یوں بنا لیا جائے گویا کہ وہ معبود ہو ؛ اور اسے ہی غائبانہ طور پر یا اس کی موت کے بعد پکارا جائے۔مشکل میں اسے دہائی دی جائے؛ اور اس سے مدد طلب کی جائے؛ اور اپنی ضروریات کے لیے اسے پکارا جائے۔[تو ایسا کرنا ہر گز جائز نہیں ؛ بلکہ یہ کام حرام اور شرک ہیں ۔]بیشک اطاعت اس شخص کی کی جاسکتی ہے جو زندہ حاضر ہو؛ جیسے مرضی حکم دے؛ اور جس چیز سے چاہے منع کرے؛ تو یہ میّت گویا کہ اللہ تعالیٰ کے مشابہ [بنالیا گیا]ہے؛ اور زندہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ۔ پس اس طرح یہ لوگ اسلام کی اس حقیقت سے نکل جاتے ہیں جس کی اصل لا إلہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کی گواہی اور اقرار ہے۔
پھر ان میں سے بہت سارے لوگ اپنے مشائخ سے نقل کردہ حکایات سے چمٹے رہتے ہیں ؛ ان حکایات میں سے اکثر جھوٹ کا پلندہ ہوتی ہیں ۔اور بعض میں غلطی ہوتی ہے۔ پس یہ رسول معصوم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول سچی احادیث کو چھوڑ کر جھوٹی اور غیر معصوم ائمہ کی طرف منسوب کہانیوں اور کہاوتوں پر اکتفاء کرتے ہیں۔
اگر ان زندہ مشائخ کے پیروکاروں میں سے ایک گمراہ اپنے فوت شدگان مشائخ کی شان میں غلو کرنے کی وجہ سے ان کی قطعی اور دو ٹوک نجات کا یقین رکھنے میں غلطی پر ہے تو شیعہ کی یہی غلطی اس سے کئی گنا بڑی اور خطرناک ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ شیعہ کا طریقہ کار درست ہے ؛ اس لیے کہ انہیں اپنی نجات کا قطعی یقین ہے۔ تو پھر مشائخہ کا طریقہ کار بھی حق ہے ؛ وہ بھی اپنی نجات کے بارے میں قطعی یقین رکھتے ہیں ۔
تو پھر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ : یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کاشمار ان انبیاء کرام میں ہوتا ہے جو شراب پیتے تھے ؛ اور اس کے لیے شراب حلال تھی؛ اس لیے کہ بعض انبیاء کرام نے بھی شراب پی ہے۔اور یزید بھی ان ہی میں سے ایک ہے ۔اور یہ طریق کار درست اور حق ہے۔اوریزید بھی نبی تھا۔اور جو کوئی نبی کے خلاف خروج کرے وہ کافر ہے ۔ توپھر اس سے