کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 26
مسلمین اور ان کے جمہور فرقے شامل ہیں ۔ اس سے بعض شیعہ خارج ہیں ۔ ان کے آئمہ اور جمہور کا قولِ وسط ہے جو نہ تو جھم اور ان کے پیروکار جبریہ کا قول ہے اور نہ معتزلہ ہے۔ پس جو یہ کہتا ہے کہ بعض حوادث ملائکہ جن اور انس کا فعل ہیں ، اور ان کو اللہ نے پیدا کیا تو وہ کتاب و سنت، اسلاف کے اجماع اور دلائلِ عقلیہ سب کا مخالف ہے۔ اسی لیے بعض اسلاف کا قول ہے: آدمیوں کا کلام اور بندوں کے افعال غیر مخلوق ہیں ، اور یہ اس شخص کے قول کی منزلت پر ہے جو یہ کہتا ہے کہ اللہ کی زمین اور اس کا آسمان غیر مخلوق ہے، اور اللہ جو بھی پیدا کرتا ہے کسی حکمت کے بغیر پیدا کرتا ہے۔ جیسا کہ گزشتہ میں ذکر ہوا۔ بارگاہ ایزدی میں تقدیر کا عذر مسموع نہیں مخلوقات میں سے بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جو بعض لوگوں کے لیے موجب ضرر ہیں ، جیسے بیماریاں اور مصائب و آلام، یہ حکمت ایزدی کا تقاضا ہے۔ پس ان صفات اور افعال کو پیدا کرنا ان جملہ اسباب میں سے ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی حکمت ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ افعال حکمت کے تحت پیدا کئے ہیں تو پھر ان کو لغو اور سفاہت نہیں کہا جاسکتا۔ جب بندے کو اس کے افعال اختیاری پر سزا دینا ظلم نہیں تو حوادث کو بارگاہ ربانی کی جانب منسوب کرنے میں بھی ایک ایسی حکمت مضمر ہے، جس کی بنا پر وہ حوادث مستحسن ٹھہرتے ہیں ۔ جب بندے کی جانب اس کی نسبت کی جائے تو یہ عدل ہے، کیونکہ اسے جو سزا ملی ہے وہ اس کے جرم کی بنا پر ملی ہے۔ اﷲ نے اس پر ظلم نہیں کیا بلکہ اس نے خود ہی اپنی جان پر ستم ڈھایاہے۔اس کی مثال کو یوں سمجھیں کہ یہ سزا دینے والا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی دیگر ہے۔ مثلاً جب کوئی حاکم چور کو سزا دے، اس کا ہاتھ کاٹ ڈالے اور مسروقہ مال اس کے اصلی مالک کو واپس کر دے تو وہ منصف حاکم کہلائے گا۔اور حاکم کے اس کے مامور بہ ہونے سے واضح ہوجاتا ہے کہ وہ عادل ہے۔ یہاں پر یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ لوگوں کی فطرت اور عقلوں میں یہ بات راسخ ہوچکی ہی کہ جب والی غصہ میں آئے اور غصب شدہ مال اس کے اصل مالک کو واپس دلوائے اور نقصان شدہ چیز کا تاوان ادا کرے؛ تو وہ والی یا حاکم اپنی اس حکم میں عادل ہوگا۔ اور عدل ہمیشہ سے لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں معروف رہا ہے۔ اور اگر چور اسے کہے کہ میری تقدیر میں یونہی لکھا تھا، پھرتم مجھے سزا کیوں دیتے ہو....؟ تو یہ بات چور کے حق میں مفید نہ ہوگی؛ اور حاکم اسے سزا دئیے بغیر نہیں رہے گا۔ اسی طرح جب روز قیامت اﷲ تعالیٰ ظالم سے قصاص لے گا تو اس کا یہ فعل عدل و انصاف کا آئینہ دار ہوگا اور اگر ظالم یوں کہے کہ:’’ تونے میری تقدیر میں اسی طرح لکھا تھا تو یہ بات اس کے حق میں کچھ بھی مفید نہ ہوگی اور تقدیر کا عذر درست نہیں مانا جائے گا، چونکہ اﷲ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے، لہٰذا اس کی تخلیق خالی از حکمت نہیں اور اس حکمت و مصلحت کے اعتبار سے تخلیق فعل اس کی نسبت سے مستحسن ہے۔اور قبیح مخلوق فعل کی قباحت اس کے فاعل کے اعتبار سے ہے چونکہ اس میں ضرر پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ کسی ظالم کو سزا دینے کا حکم والی کو خوش کرتا ہے؛ اس لیے کہ اس میں حکمت ہے؛ اور یہ حاکم عادل ہے؛ اس نے عدل پر مبنی حکم دیا ہے۔ اور اس میں ظالم کے لیے ضرر بھی ہے؛ کیونکہ اس سے اسے تکلیف پہنچتی ہے۔