کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 258
عبداللہ امام بنا تھا۔پھر اس گروہ میں سے ایک اور گروہ نکلا ہے ‘ وہ کہتے ہیں کہ: ابو ہاشم نے اپنے بعد اپنے بھائی حسن کو امام بنانے کی وصیت کی تھی۔اور حسن نے اپنے بیٹے علی بن حسن کے لیے وصیت کی تھی۔اور علی کی موت واقعہ ہوئی تو اس نے اپنے پیچھے کوئی اولاد نہیں چھوڑی ۔ پس اب یہ لوگ محمد بن حنفیہ کے واپس آنے کا انتظار کررہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ محمد بن حنفیہ واپس آئیں گے اور اس زمین کے مالک بنیں گے۔ اس فرقہ کے لوگ آج کل وادی ’’التیہ ‘‘ میں موجود ہیں ۔ [1]
اس وقت ان کا کوئی امام نہیں ہے ‘ یہاں تک کہ محمد بن علی المعروف ابن الحنفیہ واپس آجائیں ۔
ان میں سے ایک دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ : ابو ہاشم کے بعد امام محمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس بنا تھا۔ اس لیے کہ امام ابو ہاشم کا شام سے واپسی کے سفر میں راستہ میں انتقال ہوگیا تھا ؛ اس نے مرتے وقت محمد بن علی کے حق میں وصیت کی تھی۔ اور محمد بن علی نے مرتے وقت اپنے بیٹے ابراہیم بن محمد کو امام بنایا تھا۔ اور پھر ابراہیم بن محمد نے اپنے بعد ابو العباس السفاح کے لیے وصیت کی تھی کہ اسے امام بنایا جائے ۔ پھر اس کے بعد خلافت ابو جعفر المنصور کے سپرد ہوئی ۔اور پھر ایسے ہی وصیت کے تحت امامت ان لوگوں میں چلتی رہی۔
٭ پھر ان میں سے بعض لوگوں نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا ۔ ان کایہ عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد حضرت عباس بن عبد الملطلب رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانے کی وصیت فرمائی تھی؛ اور واضح الفاظ میں اس کا حکم دیا تھا۔ پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد اپنے بیٹے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو امام بنانے کے لیے وصیت کی تھی ۔اور امام عبد اللہ بن عباس نے اپنے بیٹے علی بن عبد اللہ کو امام بنانے کے لیے وصیت کی تھی۔ پھر یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا یہاں تک کہ ابو جعفر المنصور تک پہنچ گیا۔شیعہ کا یہ فرقہ راوندیہ کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔
یہ فرقہ بھی ابو مسلم خراسانی کے مسئلہ میں دو گروہوں میں بٹ گیا۔ان میں سے ایک گروہ کوالرزامیہ کہا جانے لگا ؛ اس فرقے کا بڑا رزام نامی ایک آدمی تھا۔اس گروہ کا کہنا ہے کہ ابو مسلم کو قتل کردیا گیا ہے۔ جبکہ دوسرے گروہ کا کہنا ہے:ابو مسلم نہیں مرا۔ یہ لوگ ان چیزوں کو حلال سمجھتے ہیں جسے ان کے اسلاف حلال نہیں سمجھتے تھے۔
کیسانیہ میں سے ایک تیسرے گروہ کا خیال ہے کہ: ابو ہاشم نے اپنے بعد عبد اللہ بن عمرو بن حرب کو امام مقرر کیا تھا۔ او ر ابو ہاشم کی روح اس میں حلول کر گئی تھی۔پھر ان لوگوں نے عبد اللہ بن عمرو کے کچھ جھوٹ پکڑ لیے ؛ اس وجہ سے اسے چھوڑ کر امام کی تلاش میں مدینہ چلے گئے ۔ وہاں پر ان کی ملاقات عبد اللہ بن معاویہ بن عبد اللہ بن جعفر بن ابو طالب سے ہوگئی ۔ اس نے انہیں اپنی اقتداء کرنے کی دعوت دی۔ پس ان لوگوں نے عبد اللہ بن معاویہ کو اپنا امام بنالیا ‘ او راس کے لیے وصی ہونے کا دعوی کرنے لگے۔[المقالات ۱؍ ۹۳]
پھر ان میں سے ایک گروہ کہنے لگا کہ : عبد اللہ بن معاویہ کا انتقال ہوگیاہے۔اور دوسرا گروہ کہنے لگا : نہیں ‘ بلکہ وہ دوبارہ اٹھیں گے اورپھر انتقال ہوگا۔ایک گروہ کہتا ہے: یہ وہی مہدی ہے جس کے بارے احادیث مبارکہ میں بشارت دی
[1] التیہ وہ وادی ہے جہاں بنی اسرائیل چالیس سال تک سرگرداں رہے۔ابن تیمیہ کے دور میں یہ لوگ اس علاقے میں رہتے تھے۔ [مترجم]