کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 25
ممکن کے وجود کو مرجح کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ تام اور ممکن کے وجود کو مستلزم ہو، وگرنہ اگر مرجح کے وجود کے ساتھ کبھی تو فعل کا وجود ممکن ہو اور کبھی عدم تو وہ مرجح کے حصول کے بعد ممکن ہوگا، اور اس کا عدم و وجود دونوں ممکن ہوگا۔ اس صورت میں وجود تب ہی عدم پر راجح ہوگا جب کوئی مرجح بھی ہو۔ اب یہ مرجح یا تو تامی اور فعل کے وجود کو مستلزم ہوگا، اور رہا اس کے ساتھ فعل کا عدم اور وجود دونوں ممکن ہوں گے۔ اگر تو دوسری بات ہے تو فعل کسی حال میں بھی موجود نہ ہوگا اور تسلسل باطل لازم آئے گا۔
پس معلوم ہوا کہ فعل تب ہی پایا جائے گا جب ایسا مرجح پایا جائے جو تام اور فعل کے وجود کو مستلزم ہو، اور ایسا مرجح تام الداعی التام اور قدرت ہے، اور یہ بات معتزلہ کی ایک جماعت کو تسلیم ہے۔ جیسے ابو الحسن بصری وغیرہ کہ وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جب داعی تام اور قدرت تام دونوں پائے جائیں تو فعل کا وجود لازم ہوتا ہے، اور داعی اور قدرت دونوں رب تعالیٰ کی مخلوق ہیں ، اور یہی اہل سنت کے قبول کی حقیقت ہے جو یہ کہتے ہیں : رب تعالیٰ بندوں کے افعال کا خالق ہے۔ جیسا کہ رب تعالیٰ ہر شے کا خالق ہے۔ آئمہ ذہل سنت کا قول ہے: رب تعالیٰ اسباب کے ذریعے اشیاء کا خالق ہے، اور حقیقت میں بندہ اپنے فعل کا فاعل ہے ناکہ خالق۔ پس اپنے ارادہ و قدرت کے ذریعے بندے کے فعل کا پیدا کرنے کی بابت ان کا قول و سیاہی ہے۔ جیسا کہ ان کا قول جملہ حوادث کو ان کے اسباب کے ذریعے پیدا کرنے کا ہے۔ لیکن یہ اس کا قول نہیں جو اجسام میں پائے جانے والے اسباب و قوی کا منکر ہے، اور بندے کی اس قدرت کی تاثیر کا منکر ہے، جس کے ذریعے وہ فعل کو پیدا کرتا ہے، اور یہ کہتا ہے کہ: بندے کی قدرت کا اس کے فعل میں سرے سے کوئی اثر ہی نہیں ۔ جیسا کہ جھم، اس کے پیروکاروں ، اشعری رحمہ اللہ اور ہم نواؤں کا قول ہے۔
ان لوگوں کا قول آئمہ اہل سنت اور جمہور رحمہم اللہ کا قول نہیں ۔ بلکہ اس کی اصل جھم بن صفوان کا قول ہے کہ وہ رب تعالیٰ کی مشیئت کو تو ثابت کرتا تھا پر اس کے لیے حکمت و رحمت کی نفی کرتا تھا، اور وہ بندے کے لیے فعل یا قدرتِ مؤثر کا منکر ہے۔ کہتے ہیں کہ جھم کوڑھیوں کے پاس جا کر یہ کہا کرتا تھا کہ کیا تمہارے ساتھ یہ ارحم الراحمین نے کیا ہے؟ تاکہ رب تعالیٰ کے صفتِ رحمت کے ساتھ متصف ہونے کا انکار کر سکے، اور اس کا خیال تھا کہ اس کی صرف مشیتِ محضہ ہے۔ جس کا حکمت کیساتھ کوئی تعلق نہیں ۔بلکہ وہ دو متماثل میں سے ایک کو دوسرے پر بلا مرجح کے ترجیح دینے کا قائل تھا۔
یہ متاخرین کی ایک جماعت کا قول ہے، اور یہ کہتے ہیں : اللہ کی تخلیق کی حکمت پر مبنی نہیں ، اور نہ اس نے کسی حکمت کے تمت کوئی امر کیا ہے، اور یہ کہ پورے قرآن میں کہیں بھی ’’لام کی‘‘ نہیں ہے نہ اس کی تخلیق میں اور نہ اس کے امر میں ۔ اب یہ جھمیہ مجبرہ اور وہ معتزلہ قدریہ دونوں ایک دوسرے کے قابل ہیں ۔
جبکہ امت کے اسلاف، آئمہ سنت اور جمہور علماء نہ تو اِن کے قائل ہیں اور نہ اُن کے۔ اگرچہ قدر کو ثابت کرنے والے اکثر جھم کا قول کرتے ہیں ۔ پس کلام تو ان اہلِ سنت کے بارے میں ہے جو خلفائے ثلاثہ کی امامت کو اور قدر کو دونوں کو ثابت کرتے ہیں ۔ اس نام میں حضرات صحابہ، تابعین عظام اور حدیث، تفسیر، فقہ اور تصوف کے آئمہ، جمہور