کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 243
فصل:....رافضی مذہب کے راجح ہونے کا دعوی اور اس پر رد ّ
[اشکال ] :شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’شیعہ امامیہ کے مذہب کے واجب الاتباع ہونے کی دوسری وجہ: ہمارے استاد محترم امام اعظم خواجہ نصیر ملت و حق ودین محمد بن حسن طوسی[1] قدس اللہ روحہ کا وہ قول ہے جو میرے ان سے مذاہب کے بارے میں سوال کرنے پر ارشاد فرمایا : ہم نے اس حدیث پر غور کیا ہے کہ: ’’ میری امت ۷۳ فرقوں میں بٹ جائے گی؛ ان میں سے ایک فرقہ نجات پانے والا ہوگا باقی سارے جہنم میں جائیں گے۔ ‘‘[2]نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجات پانے والے اور ہلاک ہونے والے فرقہ کو ایک دوسری متفق علیہ حدیث میں متعین کیا ہے؛ آپ نے فرمایا: ’’ میرے اہل بیت کی مثال نوح علیہ السلام کی کشتی کی ہے ۔جو اس میں سوار ہوا وہ نجات پاگیا ‘ اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہوگیا ۔‘‘ غور و فکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ امامیہ فرقہ ہی ناجی ہے کیونکہ یہ باقی سب فرقوں سے الگ تھلگ ہے۔‘‘باقی تمام مذاہب اصول و عقائد میں مشترک ہیں ۔‘‘ [انتہی کلام الرافضی]
[جواب]: اس کا جواب کئی طرح سے دیا سکتا ہے:
پہلی وجہ:....ہم کہتے ہیں کہ: اس امامی رافضی نے اس شخص کوکافر کہا ہے جو اﷲتعالیٰ کو موجب بالذات تسلیم کرتا ہے اس نے کہا ہے : ’’....اس سے لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ موجب بالذات ہے مختار نہیں ‘ سو اس سے کفر لازم آتا ہے ۔‘‘
جس شخص کو اس نے اپنا شیخ اعظم کہاہے اور اس کا قول بطور حجت کے نقل کیا ہے ،یہ استاد طوسی تو قدامت عالم کا قائل ہے اور اﷲتعالیٰ کو موجب بالذات تسلیم کرتا ہے۔جیسا کہ اس نے اپنی کتاب ’’شرح الاشارات ‘‘ میں ذکر کیا ہے۔تو شیعہ مصنف کے اس قول کی بنا پر لازم آتا ہے کہ وہ اپنے جس شیخ کے قول کو بطور حجت پیش کررہا ہے ؛ وہ کافر ہے ۔اور کافر کی بات دین اسلام میں قبول نہیں کی جاتی ۔
دوسری وجہ:....ہر خاص و عام سبھی لوگ جانتے ہیں کہ طوسی ’’الموت‘‘ کے قلعہ میں ملحد اسماعیلیہ باطنیہ کا وزیر تھا۔ پھرجب ترک مشرکین نے مسلمانوں کے ملک پر حملہ کیااور دار الخلافہ بغداد کی طرف پیش قدمی کی تو ترکوں کے مشرک بادشاہ ہلاکو خان کا مشیر اور نجومی بن گیا۔ اس نے ہلاکو خان کو خلیفہ وقت اور علماء دین کو قتل کرنے کا مشورہ دیا۔اور ان لوگوں
[1] یہ وہی خواجہ نصیر الدین طوسی ہے، جو اعدائے اسلام ابن علقمی اور ابن ابی الحدید کے ساتھ اس عدیم المثال مسلم کشی و خونریزی میں برابر کا شریک ہے جو ہلاکو نے ۶۵۵ھ میں دارالاسلام بغداد کے عظیم شہر میں بپا کی۔ طوسی کے الحاد و فساد اور اسلام اور مسلمانوں سے اس کی خیانت کاری سے متعلق قبل ازیں حاشیہ تحریر کیا جا چکا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جس کتاب کی تردید کررہے ہیں اس کا مصنف ابن المطہر اور اس کے ہم نوا عداوت صحابہ میں طوسی اور اس کے نظائر و امثال ہی کے مقلد اور زلہ ربا ہیں ۔
[2] سننِ التِرمِذِی:۴؍۳۴؛ کتاب الإِیمانِ، باب افتِراقِ ہذِہِ الأمۃ،وقال التِرمِذِی: حدِیث أبِی ہریرۃ حدِیث حسن صحِیح؛ سننِ أبِی داؤود:۴؍۲۷۶؛ ِکتاب السنۃِ، باب شرح السنۃ، سننِ ابنِ ماجہ:۲؍۱۳۲۱؛کتاب الفِتنِ، باب افتِراقِ الأممِ،سننِ الدارِمِیِ:۲؍۲۴۱؛ ِکتاب السِیرِ، باب فِی افتِراقِ الأمۃِ، المسندِ ط۔ المعارِفِ:۶؍۱۶۹؛ وصحح المحقِق الحدِیث ط الحلبِی: ۳؍۱۲۰،۳؍۱۴۵ وتکلم الألبانِی علی الحدِیثِ طوِیلا فِی سِلسِلۃِ الأحادِیثِ الصحِیحۃِ برقم:۲۰۳۔