کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 24
مسئلہ تحسین و تقبیح
اب رہا تحسین و تقبیح کا مسئلہ تو لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایک فعل جہاں بندے کی منفعت اور اس کے مناسب امر کے حصول کا سبب ہوتا ہے، وہیں ایک دوسرا فعل بندے کی مضرت کے حصول کا اور اس کے غیر مناسب امر کے حصول کا سبب بھی ہوتا ہے۔ کبھی اس بات کا علم عقل سے ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک فعل کبھی صفت کمال ہوتا ہے تو کبھی دوسرا فعل صفت نقص بھی ہوتا ہے۔ اختلاف اگر ہے تو اس بات میں ہے کہ کبھی فعل عقاب اور ذم کا سبب بھی ہوتا ہے، اور اس بارے دو اقوال مشہور ہیں ۔
اس باب میں امام احمد، امام مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ کے اصحاب میں اختلاف ہے۔
رہے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب تو وہ تحسین و تقبیح دونوں کا قول کرتے ہیں ، اور یہی مسلمانوں کا جمہور جماعتوں کا قول بھی ہے، اور درحقیقت یہ اختلاف لوٹتا ہے۔ ملائمت، منافرت، منفعت اور مضرت کی طرف۔ پس عقاب اور مذمت بندے کے غیر مناسب اور اس کے لیے مضر ہے۔ لہٰذا حسن و قبح محبوب و مکروہ کے حصول سے باہر نہ نکلے گا۔ پس حسن وہ ہے جو محبوب، مطلوب اور بالذات مراد کی تحصیل کا سبب ہے، اور قبیح وہ ہے جو مبغوض و مکروہ کی تحصیل کی سبب بنے۔ جب حسن محبوب کی طرف اور قبیح مکروہ کی طرف لوٹتا ہے اور یہ دونوں نافع اور ضار اور طیب اور خبیث کے بمنزلہ ہیں ، لہٰذا یہ بھی احوال کے تنوع پر متنوع ہوں گے۔ پس جیسے ایک شے ضرورت کے وقت نافع ہوتی ہے تو کسی دوسرے وقت مضر ہوتی ہے۔ اسی طرح فعل بھی ہے جیسے مینہ کا کھانا کبھی قبیح تو کبھی دوسرے موقع پر (جب مرنے کا خطرہ ہو تو) حسن ہوتا ہے۔
جب بات یہ ہے تو یہ امر اختلافی نہیں ۔ جیسے بندہ اس کا فاعل ہو بغیر اس کے کہ اللہ نے اس کے لیے قدرت اور ارادہ کو پیدا کیا ہے، یا اس بات کے ساتھ کہ اللہ نے اس کے لیے قدرت ارادہ کو پیدا کیا۔ جیسا کہ ان جملہ امور میں ہے جو نافع و ضار اور محبوب و مکروہ ہیں ۔
یقینی دلائل کی بنا پر یہ حقیقت ثابت ہوچکی ہے کہ جو چیز بھی حادث ہے وہ اﷲ کی پیدا کردہ ہے۔اور ہر ممکن جو کہ وجود اور عدم کو قبول کرتا ہو ؛ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ہو جاتا ہے اور اگر نہ چاہے تو نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے کہ بندے کے افعال بھی حوادث کے زمرہ میں شامل ہیں ۔ اور اس کی ایک وجہ یہ بھی کہ خود انسان کا فعل جب وہ اسے سر انجام دیتا ہے؛ وہ بھی حادث ہے اور عدم سے وجود میں آیا ہے؛ اس کے لیے سبب کا ہونا ضروری ہے۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ:’’ فعل بندے کے ارادہ سے حادث ہوا ۔‘‘تو ہم کہیں گے کہ:’’ ارادہ بھی حادث ہے، لہٰذا اس کے لیے بھی کسی سبب کی ضرورت ہے۔ اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ فعل ممکن ہے، (یعنی اس کا وجود و عدم برابر ہے) لہٰذا اس کے وجود کو عدم پر ترجیح دینے کے لیے کسی مرجح کی ضرورت ہے، اسی طرح بندے کا فاعل ہونا بھی ممکن ہے۔ لہٰذا اس کے لیے بھی کسی محدث و مرجح کا وجود ناگزیر ہے۔ اس میں سب حوادث مساوی ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔