کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 239
کسی بھی گروہ میں کوئی ایسا ضعیف قول نہیں پایا جاتا جس سے بڑھ کر ضعیف اور شنیع قول شیعہ مذہب میں موجود نہ ہو۔
اس سے واضح ہوگیا کہ اہل سنت والجماعت کا ہر گروہ ہر حال میں شیعہ سے بہتر ہے۔اس لیے کہ شیعہ مذہب میں جس کثرت سے جھوٹ ‘ تکذیب حق ؛ کثرت جہالت ؛ محال امور کی تصدیق ؛ قلت ِ عقل ؛ غلو ؛ اتباع ہوی؛ مجہولات سے تعلق [اور اس طرح کے دیگر مذموم امور ] پائے جاتے ہیں ‘ اس کی مثال کسی دوسرے فرقہ میں نہیں ملتی ۔ رہ گیا غلاموں سے لواطت کے جواز کے بارے میں شیعہ کا بیان؛ تو وہ صریح جھوٹ ہے، علماء اہل سنت میں سے یہ کسی کا قول نہیں ۔میرا خیال ہے کہ شیعہ کا مقصد امام مالک رحمہ اللہ پر طعنہ زنی کرنا ہے ۔ اس لیے ہم نے دیکھاہے بعض جہلاء نے امام مالک رحمہ اللہ کی طرف ایک ایسی روایت منسوب کی ہے۔اس کی اصل عورتوں کے ادبار کے بارے میں ہے۔اہل مدینہ کاایک گروہ اسے مباح سمجھتا تھا۔جب امام مالک سے اس بارے میں دو قول نقل کیے گئے تو جاہل نے یہ سمجھا کہ آپ نے غلاموں کے ساتھ لواطت کو مباح قرار دیاہے۔یہ بہت بڑی غلطی ہے ۔ کوئی ادنی انسان بھی ایسی بات نہیں کہہ سکتا تو پھر امام مالک رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر اور صاحب شرف و منزلت عالم کے متعلق کیسے یہ تصور کیا جاسکتا ہے ؟جب کہ آپ کے مذہب میں انسداد فواحش اور احکام سد ذرائع بکمال موجود ہیں ۔اور یہ مذہب حدود قائم کرنے کے بارے میں سب سے زیادہ حریص ہے۔ منکرات اور بدعات کے انکار میں سب سے آگے ہے۔[1]
امام مالک رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ بالاتفاق کہتے ہیں کہ:’’ غلاموں سے لواطت کو حلال قرار دینے والا کافر ہے۔‘‘یہ قول تمام ائمہ مسلمین کا ہے۔لواطت کو حلال سمجھنے والا ایسے ہی ہے جیسے اپنی رضاعی بیٹی یا رضاعی بہن سے وطی کو حلال سمجھنے والا؛یا پھر جو اپنے باپ یا بیٹے کی بیوی سے جماع کوحلال سمجھتا ہو۔ پس رضاعی بیٹی یاایسی مملوکہ جس نے اس سے دودھ پیا ہو‘ یا رضاعت اور سسرالی تعلق کی وجہ نکاح باتفاق مسلمین مباح نہیں ہوتا۔ پس اس کا غلام بالاولی اس حرمت کا زیادہ مستحق ہے۔ اس لیے کہ یہ جنس نہ ہی نکاح سے حلال ہوسکتی ہے او رنہ ہی ملک یمین سے ؛ بخلاف عورتوں کی جنس کے۔
امام مالک اورعلماء اہل مدینہ رحمہم اللہ کا مذہب یہ ہے کہ لوطی کو رجم کرکے قتل کیا جائے۔ خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ۔ خواہ وہ اپنے غلام سے لونڈے بازی کرے یا کسی دوسرے سے ۔ ان علماء کرام رحمہم اللہ کے ہاں فاعل اور مفعول دونوں کے لیے قتل کیے جانے کا حکم ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے ؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردو۔‘‘[2]
[1] وقال ابن قدامۃ فِی المغنِی:۹؍۳۱واختلفتِ الرِوایۃ عن أحمد رحِمہ اللہ فِی حدِہِ حد اللِواطِ فروِی عنہ أن حدہ الرجم بِکرا کان أو ثیِبا، وہذا قول علِی وابنِ عباس وجابِرِ بنِ زید وعبدِ اللہِ بنِ معمر والزہرِیِ وأبِی حبِیب وربِیع ومالکِ۔
[2] سننِ بِی داود:۴؍۲۲۰؛ کتاب الحدودِ، باب فِیمن عمِل عمل قومِ لوط، ونصہ فِیہِ: قال: قال رسول اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من وجدتموہ یعمل عمل قومِ لوط فاقتلوا الفاعِل والمفعول بِہ۔ وجاء الحدِیث أیضا فِی: سننِ التِرمِذِیِ ؛ کتاب الحدودِ، باب ما جاء فِی حدِ اللوطِی۔ سننِ ابنِ ماجہ:۲؍۸۵۶؛ کِتاب الحدودِ،باب من عمِل عمل قومِ لوط۔ وقال الشیخ أحمد شاِکر رحِمہ اللّٰہ: ِإسنادہ صحِیح۔