کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 235
اس کا رد کرنا رافضی کے بس کی بات نہ ہوگی۔حالانکہ صحیح بات جس پر جمہور علمائے کرام رحمہم اللہ کا مذہب یہی ہے کہ کتے اور باقی درندوں کا چمڑا دباغت دینے سے پاک نہیں ہوتا۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی ایک اسناد کے ساتھ منقول ہے کہ: ’’ آپ درندوں کے چمڑوں کو دباغت دینے سے منع فرمایا کرتے تھے۔‘‘[1] رہ گیا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے: ((اَیُّمَا إِہَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَہُرَ )) ’’جو چمڑا بھی رنگا جائے وہ پاک ہوجاتا ہے ۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین نے ضعیف قراردیا ہے۔حالانکہ اسے امام مسلم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔[2] ایسے ہی کتے کے حرام ہونے پر شرعی دلائل موجود ہیں ۔لیکن ان امامیہ کے بس میں نہیں ہے کہ یہ امام مالک رحمہ اللہ سے وارد ہونے والے ایک قول پر رد کرسکیں ۔ خشک گندگی پر بغیر کسی حائل کے نماز پڑھنے کا مسئلہ: خشک گندگی پر بغیر کسی حائل کے نماز پڑھنا ؛ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ یا ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا۔لیکن اگر زمین کو نجاست لگے جائے؛ اور پھر سورج کی وجہ سے یا ہواؤوں کی وجہ سے یا زمین میں تحلیل ہوجانے کی وجہ سے ختم ہوجائے تو اکثر لوگوں کا مذہب ہے کہ یہ زمین پاک ہوگئی ہے اور اس پر نماز پڑھنا جائز ہے ۔ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔اور امام مالک رحمہ اللہ اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت میں منقول ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ کا پھلا قول بھی یہی ہے۔یہ قول ان لوگوں کے قول کی نسبت زیادہ ظاہر و مقبول ہے جو اسے پاک نہیں مانتے ۔ وہ قصہ جس میں رافضی نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب کے مطابق بادشاہ کے دربار میں نماز پڑھنے کا واقعہ بیان کیا ہے ۔یہاں تک کہ حنفی بادشاہ نے اپنے مذہب سے رجوع کرلیا۔ یہ قصہ اہل سنت والجماعت کا مذہب فاسد ہونے پر دلالت نہیں کرتا ۔ اس لیے کہ اہل سنت والجماعت کہتے ہیں : حق ان سے خارج نہیں ہوسکتا۔ وہ ہر گزیہ نہیں کہتے کہ : ان میں سے کوئی ایک خطا نہیں کرسکتا۔ اس طرح کی نماز کا جمہور اہل سنت والجماعت انکار کرتے ہیں ۔ جیسا کہ امام شافعی ؛ امام مالک ؛ احمد بن حنبل رحمہم اللہ
[1] سننِ أبِی داود:۴؍۹۶؛ کتاب اللِباسِ،باب ما جاء فِی جلودِ النمورِ والسِباعِ، سننِ التِرمِذِیِ:۳؍۱۵۲؛ ِکتاب اللِباسِ، باب ما جاء فِی النہیِ عن جلودِ السِباع، سننِ النسائِیِ:۷؍۱۵۶؛ ِکتاب الفرعِ والعتِیرِۃ، باب النہیِ عنِ الِانتِفاعِ بِجلودِ السِباع ، المسندِ ط۔ سننِ النسائِیِ:۷؍۱۵۵؛ کتاب الفرعِ والعتِیرِ، باب الرخصِ فِی الِاستِمتاعِ بِجلودِ المیتِ إذا دبِغت۔ [2] مسلِم:۱؍۲۷۷؛ کتاب الحیضِ، باب طہارۃِ جلودِ المیتۃِ بِالدِباغ، ولفظہ: ِإذا دبِغ الإِہاب فقد طہر، وانظر شرح النووِیِ علی مسلِم:۴؍۵۳؛ والحدِیث فِی سننِ أبِی داود:۴؍۹۳؛ِکتاب اللِباسِ، باب فِی أُہُبِ المیتۃ،سننِ التِرمِذِیِ:۳؍۱۳۵؛کتاب اللِباسِ، باب ما جاء فِی جلودِ المیتۃِ إِذا دبِغت، سننِ النسائِیِ:۷؍۱۵۳؛کتاب الفرعِ والعتِیرۃِ، باب جلودِ المیتۃِ، سننِ ابنِ ماجہ:۲؍۱۱۹۳، کتاب اللِباسِ، باب لبسِ جلودِ المیتۃِ إِذا دبِغت۔