کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 23
پس تقدیر پر ایمان ؛ اور جو کچھ مصائب و آلام اللہ تعالیٰ نے مقدر میں لکھ دیے ہیں ؛ ان پر رضامندی اور تسلیم ؛ ایمان کی اصل حقیقت ہے اور جہاں تک گناہوں کا تعلق ہے تو کسی ایک کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے حجت پیش کرے۔بلکہ انسان کو چاہیے کہ وہ گناہوں کے ارتکاب سے بچ کر رہے۔ اور اگر اس سے کوئی گناہ صادر ہوجائے تو وہ فوراً اس سے توبہ کرے۔ جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے کیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ بعض مشائخ نے فرمایا ہے :’’ دو سے گناہ ہوا؛ حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس؛ پس حضرت آدم علیہ السلام نے توبہ کی ؛ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی؛ اورانہیں چن لیااور ہدایت سے نوازا۔ اور ابلیس نے تقدیر سے حجت پکڑتے ہوئے گناہ پر اصرار کیا۔ پس جو کوئی گناہ سے توبہ کرتا ہے تو وہ اپنے باپ حضرت آدم علیہ السلام سے مشابہت رکھتا ہے۔ اور جو کوئی مصر رہتا ہے اور تقدیر کو حجت بناتا ہے تووہ شیطان کے مشابہ ہے۔
عقول میں بدیہی طور پر فاعل مختار اور دیگر کے مابین فرق کو استقرار حاصل ہے۔ اس سے مقصود حاصل ہوگیا ۔اور ایسے ہی عقول میں بدیہی طورپر اس بات کوبھی استقرار حاصل ہے کہ افعال اختیاریہ نفس کا کسب ہیں ۔یہ بات محتاج بیان نہیں کہ افعال اختیاریہ کی بنا پر انسان صفات محمودہ اور صفات مذمومہ دونوں حاصل کر سکتا ہے۔ بخلاف ازیں قصیر القامت ہونے یا کالے گورے ہونے کی بنا پر ان کا حصول ممکن نہیں ۔
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’نیکی دل کا نور، چہرے کی رونق، وسعت رزق، قوت بدن اور مخلوقات کے دلوں میں محبت کی باعث ہے اور بیشک بدی کی وجہ سے چہرے پر ایک سیاہی چھا جاتی ہے؛ اور دل میں اندھیرا پیدا ہوتا ہے؛ اور بدن کمزور ہو جاتا ہے؛ اور رزق میں کمی آتی ہے؛اور مخلوق کے دلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔‘‘
پس نیکی کا کام کرنے کے اچھے اثرات انسان کی ذات پر بھی مرتب ہوتے ہیں ؛ اور باہر بھی۔ یہی حال گناہوں کے ارتکاب کا بھی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے نیکی کو ایسی چیزوں کا سبب بنایا ہے۔ اور برائیوں کو دوسری قسم کی چیزوں کا سبب بنایا ہے۔ جس طرح زہر کھانے کو بیماری اور موت کا سبب قرار دیا ہے، تاہم تریاق سے اس کا ازالہ ممکن ہے، جس طرح برائیوں کو توبہ، اعمال صالحہ اور گناہ کو دور کرنے والے مصائب و آلام کے ذریعہ دور کیا جاتا ہے۔اور دنیا میں پیش آنے والے مصائب گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں ۔جیسا کہ کبھی کبھار زہر کے اثرات کو دواء کے ذریعہ سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ اور کبھی اس کے نتیجہ میں ہلکا سا مرض لاحق ہوتا ہے اور پھر صحت و عافیت مل جاتی ہیں ۔
باقی رہی یہ بات کہ فعل کو پیدا کر کے خود ہی اس پر سزا دینا ظلم ہے۔ تو یہ اسی طرح ہے جیسے کہا جائے زہر کو پیدا کر کے اسے موجب ہلاکت بنانا ظلم ہے۔اور یہ ہے کہ کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر دوسرے مقام پر رکھ دینا۔ اس انسان کا اپنے ظلم کے اثرات کا مستحق ہونا؛ جو کہ حقیقت میں اللہ کی نافرمانی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کسی دوسرے پر ظلم کرکے اس کے اثرات کا مستحق ہوجائے۔