کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 229
۱۲۔ کتے کا گوشت کھانا مباح ہے۔ ۱۳۔ غلام کے ساتھ لواطت مباح ہے۔ ۱۳۔ باجے گاجے اور ساز وغیرہ اسباب غفلت مباح ہیں ۔ ان کے علاوہ بھی ایسے کئی مسائل ہیں جن کے بیان کا موقع یہ نہیں ہے ۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]۔ [جوابات] : پہلا جواب:....ان میں ایسے مسائل بھی ہیں جو جمہور اہل سنت پر محض بہتان ہیں ۔جمہور اہل سنت والجماعت ان میں سے کسی کو بھی درست تسلیم نہیں کرتے۔[1] ان میں سے ہر ایک مسئلہ کے برعکس اقوال موجود ہیں ۔اگرچہ بعض لوگوں نے یہ باتیں کہی بھی ہوں ؛ تو اہل سنت میں دوسرے ایسے لوگ موجود ہیں جن کے پاس حق اور صواب موجود ہے۔اوراگر ان میں سے کوئی بات درست ہو تو بھی حق اہل سنت و الجماعت کے ساتھ ہی ہے ۔دونوں صورتوں میں اہل سنت والجماعت حق سے باہر نہیں جاتے ۔ دوسرا جواب:....ہم کہتے ہیں کہ: خود رافضی فقہ میں بھی ایسے مسائل کی کمی نہیں ،جنہیں دین کے بارے میں ادنی معرفت رکھنے والا مسلمان بھی اپنی زبان پر لانا گوارہ نہیں کرتا۔ ان میں سے شیعہ کے یہاں بعض مسائل متفق علیہا ہیں اور بعض متنازع فیہا ہیں ۔ان میں سے چند مسائل ملاحظہ ہوں ۔ ۱۔ شیعہ جمعہ و جماعت کے تارک ہوتے ہیں ۔ ۲۔ روافض مساجد کو ویران رکھتے ہیں جنہیں آبادکرنے اوران میں جمعہ اور باجماعت نمازرمیں اللہ کا ذکر کرنے کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ اور مقبروں کو رونق بخشتے ہیں ۔جن کا بنانا ہی اللہ اور اس کے رسول نے حرام ٹھہرایا ہے۔ان قبروں اور درگاہوں کو باڑے بنالیتے ہیں ۔اور ان میں بعض لوگ ان درگاہوں کی زیارت کو حج کے برابر قرار دیتے ہیں ۔[2] اس کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ رافضی عالم شیخ مفید نے ’ مناسک حج المشاہد ‘‘ (حج قبور کے احکام) کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی ہے جو بالکل عیسائیوں کی کتابوں کی طرح کذب و شرک کا پلندہ ہے۔
[1] جاہل شیعہ....جو روافض کے مشہور علماء میں شمار ہوتا ہے،....اور اس کے نظائر و امثال کی افتراء پر دازیوں نے علامہ ہندحضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی ابن شاہ ولی اﷲ دہلوی کو مجبور کیا کہ آپ شیعی فقہ کے رسوائے عالم مسائل و احکام کا راز طشت از بام کریں ، چنانچہ آپ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف تحفہ اثنا عشریہ کے ساتویں باب میں از صفحہ ۱۰۸ تا ۲۳۷ (طبع سلفیہ) اس قسم کے سب مسائل جمع کر دئیے ہیں ، ان سطور کے قاری سے گذارش کی جاتی ہے کہ امام ابن تیمیہ کی تنقیدات کا مطالعہ کرنے کے بعد تحفہ اثنا عشریہ میں شیعی فقہ کے اعجوبۂ روزگار اور حیران کن مسائل ملاحظہ کرے اور پھر شیخ الاسلام کے بیان کردہ حقائق سے ان کا موازنہ کرے۔ [2] عجیب بات یہ ہے کہ بعض قبروں میں وہ لوگ سرے سے مدفون ہی نہیں جن کے نام سے وہ مشہور ہیں مثلاً نجف میں حضرت علی کی قبر اور کربلا میں حضرت حسین کا مزار صرف اسی امکان کی بنا پر بنا دیا گیا کہ یہ دونوں حضرات وہاں مدفون ہیں ، یہ تاریخی حقائق ہیں شیعہ کا ان سے انکار ایک جدا گانہ امر ہے، لطف یہ ہے کہ مقبرے تعمیر کرتے وقت شیعہ اس حقیقت سے کلیۃً آگاہ تھے کہ وہ حضرات یقیناً ان میں مدفون نہیں اس کے باوجود وہ مزار تعمیر کرنے اور انہیں ان کے نام سے مشہور کرنے پر مصر تھے۔