کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 22
سے توبہ کرنے والا ایسے ہی ہوتا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔
اگر تقدیر سے احتجاج کرنا درست ہوتا تو ابلیس، فرعون اور ان کے ہم نوا اس سے ضرور استدلال کرتے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت آدم علیہ السلام پر جو تنقید کی تھی، اس کی وجہ وہ مصیبت تھی جو حضرت آدم علیہ السلام کے شجرہ ممنوعہ کا پھل کھانے کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پہنچی؛ اسی لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت آدم علیہ السلام کو مخاطب کر کے فرمایا:
’’آپ نے ہمیں اور اپنے بیٹوں کو جنت سے کیوں نکالا؟‘‘[1]
حقیقت یہ ہے کہ بندہ عیب و گناہ کی بجائے مصائب و آلام کے وقت تقدیر کی جانب رجوع کرنے کیلئے مامور ہے۔ لہٰذا چاہیے کہ وہ مصائب و آلام میں صبر و سکون کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے اور گناہوں سے توبہ کرتا رہے، اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ﴾ (غافر:۵۵)
’’صبر کیجئے، بے شک اﷲ کاوعدہ سچا ہے اور اپنے گناہ کی مغفرت طلب کیجئے۔‘‘
اوراﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اِِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا ﴾
(الحدِیدِ:۲۲)
’’ کوئی مصیبت نہ زمین پر پہنچتی ہے اور نہ تمھاری جانوں پر مگر وہ ایک کتاب میں ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں ۔‘‘
اوراﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیبَۃٍ اِِلَّا بِاِِذْنِ اللّٰہِ وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ یَہْدِ قَلْبَہُ ﴾ (التغابن۱۱)
’’ کوئی مصیبت نہیں پہنچی مگر اللہ کے اذن سے اور جو اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔‘‘
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس سے مراد وہ آدمی ہے جسے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ یقین رکھتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے؛ پس وہ اس پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے راضی رہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین صحابہ کرام اور تابعین رضی اللہ عنہم میں سے کئی حضرات نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
’’کوئی انسان اس وقت ایمان کی حقیقت کو نہیں پاسکتا جب تک وہ یقینی طور پر نہ جان لے کہ جو مصیبت اس پر آئی ہے وہ ٹلنے والی نہ تھی؛ اور جو ٹل گئی ہے؛ وہ اس پر آنے والی نہ تھی۔‘‘
[1] صحیح بخاری،کتاب احادیث الانبیاء، باب وفاۃ موسیٰ و ذکرہ بعد (ح: ۳۴۰۹، ۷۵۱۵) صحیح مسلم، کتاب القدر، باب حجاج آدم و موسیٰ صلی اللہ علیہما وسلم (ح:۲۶۵۲)۔