کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 218
دِرْهَمٌ، إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ أَلْقٰي فِي النَّارِ)) [1]
’’جس نے اپنے بھائی کو تکلیف پہنچائی ہو، یا اس کی عزت پر ہاتھ ڈالا ہو ،پس اسے وہ اس دنیا میں ہی ختم کردے ، اس سے قبل کہ وہ دن آئے جب اس کے پاس نہ دینار ہو اور نہ ہی درہم ،اور اگر اس کا کوئی نیک عمل ہوگا تو اس سے اس ظلم کی قدر اعمال لیکر مظلوم کو دیے جائیں گے ، اور اگر اس کی کوئی نیکی نہ ہوگی تو مظلوم کی برائیاں لیکر اس پر ڈالی جائیں گی۔اورپھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘
صحیحین میں ایک حدیث ہے :ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے پوچھا :
((أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ؟ قَالُوا: الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ، فَقَالَ: إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ، وَصِيَامٍ، وَزَكَاةٍ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا، وَقَذَفَ هَذَا، وَأَكَلَ مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا، وَضَرَبَ هَذَا، فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ ۔)) [2]
’’کیاتم جانتے ہو مفلس کون ہے ؟ کہنے لگے : ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ دینار ہے اور نہ ہی درہم ہے،، ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :,, میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت والے دن نماز، روزے، اور زکوٰۃ لیکر آئےگا ،اور اس کی حالت یہ ہوگی کہ کسی کو اس نے گالی دی ہوگی ،اور کسی پر تہمت لگائی ہوگی، اور کسی کا مال ناحق کھایا ہوگا ،اور کسی کا خون بہایا ہوگا،اور کسی کو مارا ہوگا۔پس اس کو بھی اس کی نیکیاں دی جائیں گی اور اس کو بھی اس کی نیکیاں دی جائیں گی۔ اور اگر اس کی نیکیاں اس پر حساب پورا ہونے سے پہلے ختم ہوگئیں تو ان لوگوں کے گناہ لے کر اس شخص پر ڈالے جائیں گے اور اسے جہنم کی آگ میں ڈالا جائے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّاٰتِ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیْنَ﴾ [ہود۱۱۳]
’’ یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لئے۔‘‘
یہ آیت مبارکہ دلالت کرتی ہے کہ انسان سے جب کوئی برائی ہو ‘ اور اس کے بعد نیکیاں کی جائیں تو یہ نیکیاں ان برائیوں کے اثرات کو ختم کردیتی ہیں ۔ اور یہ بھی ہے کہ اگرایسی برائیاں ہوں جو نیک اعمال سے ختم نہ ہوں تو وہ توبہ سے
[1] البخارِیِ:۳؍۱۲۹کتاب المظالِمِ والغصبِ، باب من کانت لہ مظلِمۃ عِند الرجلِ فحللہا لہ: ۹؍۱۱۱، کتاب الرِقاقِ، باب القِصاصِ یوم القِیامۃِ، سننِ التِرمِذِیِ:۳۷؍۴، کتاب صِفِۃ القِیامۃِ، باب ما جاء فِی شأنِ الحِسابِ والقِصاصِ۔ المسندِ ط۔ الحلبِیِ: ۲؍۴۳۵، ۵۰۶۔
[2] مسلِم:۴؍۱۹۹۷کتاب البِرِ والصِلۃِ والآدابِ باب تحرِیمِ الظلم، سننِ التِرمِذِیِ:۴؍۳۶ کتاب صِفۃِ القِیامۃِ، باب ما جا فِی شأنِ الحِسابِ والقِصاص، المسند :۵؍۱۷۹۔ ابن حبان: ۱۰؍ ۲۵۹۔