کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 215
فتنہ وفساد سے بہت بڑھ کر ہے ۔ تو پھر اس صورت میں بڑے فتنہ و فساد سے بچنے کے لیے اس سے کم درجہ کے فتنہ و فساد کو قبول کیا جاسکتاہے۔ تاریخ میں یہ بات معلوم نہیں ہوسکی کہ حکمران کے خلاف بغاوت کے نتیجہ میں کوئی فائدہ حاصل ہواہو؛ بلکہ اس بغاوت کی وجہ سے پہلے فتنہ و فساد سے بڑا فساد پیدا ہوا جسے یہ لوگ ختم کرنا چاہتے تھے ۔
اللہ تعالیٰ نے ہر باغی اور ظالم کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا خواہ کیسے بھی ہو۔ اور نہ ہی باغیوں سے جنگ شروع کرنے کا حکم دیا ہے ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَاِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِنْ بَغَتْ اِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْریٰ فَقَاتِلُوْا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِِنْ فَائَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ ﴾ (الحجرات:۹)
’’اگر مومنوں کی دو جماعتیں باہم برسر پیکار ہوں تو ان میں صلح کرا دیجئے اور اگر ایک گروہ دوسرے پر ظلم کر ے؛ تو اس سے لڑو جو دوسرے پر ظلم کررہا ہو؛ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم پر لوٹ آئے۔اگر وہ اللہ کے حکم پر لوٹ آئے تو ان کے مابین عدل و انصاف کے ساتھ صلح کرادو ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ایک باغی جماعت سے بھی جنگ شروع کرنے کا حکم نہیں دیا تو پھر حکمران سے جنگ چھیڑنے کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے ؟ صحیح مسلم میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ عنقریب ایسے امرا ہوں گے جن کے خلاف شریعت اعمال کو تم پہچان لوگے اور بعض اعمال نہ پہچان سکو گے۔پس جس نے اس کے اعمال بد کو پہچان لیا وہ بری ہوگیا۔ جو نہ پہچان سکا وہ محفوظ رہا۔ لیکن جو ان امور پر خوش ہوا اور تابعداری کی[وہ ہلاک ہوا]۔ صحابہ نے عرض کیا:کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نہیں جب تک وہ نماز ادا کرتے رہیں ۔‘‘ [صحیح مسلم: ح۳۰۳]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حکمرانوں کے ساتھ جنگ کرنے سے منع فرمایاہے ؛ حالانکہ آپ ہی خبر بھی دے رہے ہیں کہ تم لوگ ان میں برے امور دیکھوگے۔پس یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ حکمرانوں کے خلاف تلوار لیکر نکلنا جائز نہیں ۔جیسا کہ بعض فرقے حکمرانوں سے برسر پیکار رہتے ہیں جیسے خوارج ؛ معتزلہ وغیرہ ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ عنقریب میرے بعد حقوق تلف کئے جائیں گے اور ایسے امور پیش آئیں گے جنہیں تم ناپسند کرتے ہو۔ صحابہ نے عرض کیا:’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے انہیں حکم کیا دیتے ہیں ؟ جو یہ زمانہ پائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم پر کسی کا جو حق ہو وہ ادا کر دو اور اپنے حقوق تم اللہ سے مانگتے رہنا۔‘‘
[صحیح مسلم:ح۲۷۸ ]
اس حدیث مبارک میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ حکمران ظلم کریں گے اور برائیوں کے مرتکب ہوں