کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 214
سے بھی حق و عدل کا دامن کچھ نہ کچھ چھوٹ جاتا ہے ‘ مگر ان کی نسبت رافضہ کا معاملہ زیادہ خطرناک ہے ‘ وہ حق و عدل سے بہت زیادہ اور سخت خروج کرنے والے ہوتے ہیں ۔ اہل سنت والجماعت کا عقید ہ کتاب وسنت کے بالکل مطابق ہے ۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ حاکم یا ولی امر کی اطاعت صرف ان امور میں ہوگی جن میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہو۔ اگر وہ اللہ کی نافرمانی کا کوئی حکم دے تو اس کی کوئی اطاعت نہیں ہوگی۔
تیسری بات:....لوگوں نے فاسق اورجاہل حکمران [ولی امرکی اطاعت ] کے متعلق[بذیل اقوال میں ] اختلاف کیا ہے :
پہلاقول:....اگروہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دے ‘تو اس کی اطاعت کی جائے گی؛ اور اس کے حکم کو نافذکیا جائے گا اور اس کی قسم کو پورا کیا جائے گا؛جب کہ وہ عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہو۔
دوسرا قول:....کسی بات میں بھی اس کا حکم نہیں مانا جائے گا‘ اور نہ ہی اس کا حکم چلے گا اورنہ ہی اس کی قسم کو پورا کیا جائے گا۔
تیسرا قول :....امام اعظم یعنی حکمران اور اس کے فروع یعنی قاضی وغیرہ کے درمیان فرق کیا جائے گا۔ [یہ تین اقوال ہیں ]
اہل سنت والجماعت کے ہاں سب سے ضعیف ترین قول اس کی تمام باتوں کا رد کرنا ‘ حکم نہ ماننا اور قسم پوری نہ کرنا ہے۔ جب کہ صحیح ترین قول پہلا قول ہے ۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دے تو پھر اس کی بات مانی جائے گی۔ اس کا حکم تسلیم کیا جائے گا ‘ اور اس کی قسم کوپورا کیا جائے گا۔ اس شرط کے ساتھ کہ جب اس کا حکم عدل پر مبنی ہو۔ یہاں تک کہ جاہل قاضی اورظالم انسان بھی اس کے حکم کو عدل و انصاف کے ساتھ نافذ کرے تو اس کی بات مانی جائے گی۔ یہ اکثر فقہاء کا قول ہے۔
تیسرا قول یہ تھا کہ:امام اعظم اور دوسروں کے درمیان فرق کیا جائے گا۔ اس لیے کہ حاکم کوفسق و فجور کی بنا پر اپنے عہدہ سے قتال اور فتنہ کے بغیر معزول کرنا ممکن نہیں ۔بخلاف قاضی یاگورنر وغیرہ کے ۔ انہیں معزول کیا جانا ممکن ہے۔ یہ فرق بھی ضعیف ہے ۔اس لیے کہ جب گورنر وغیرہ کو اصحاب شوکت و قوت لوگوں نے مقرر کیا ہو تو اسے بھی فتنہ کے بغیر معزول کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ جب اسے معزول کرنے کی کوششوں میں اس کے اس عہدہ پر باقی رہنے سے زیادہ فساد کا اندیشہ ہو تو پھر اس صورت میں چھوٹے فساد کو ختم کرنے کے لیے بڑے فساد کو دعوت دینا کسی طرح بھی جائز نہیں ۔ یہی حال حکمران کا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کے مذہب میں یہ مشہور ہے کہ : یہ لوگ حکمرانوں کے خلاف مسلح خروج اور ان سے جنگ و قتال کو جائز نہیں سمجھتے۔اگرچہ یہ حاکم ظالم ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی صحیح احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں ۔اس لیے کہ ان کے ساتھ جنگ و قتال کرنے میں جو فتنہ و فساد ہے ‘ وہ ان کے ظلم پر خاموش رہنے کے