کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 21
خون میں جیسے چاہتا اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق ظلم و فحش کا ارتکاب کرتا اور پھر اس پر تقدیر سے دلیل پیش کرتا کہ یہ تو اس کے مقدر میں لکھا جا چکا تھا۔ جو لوگ شیعہ اورمعتزلہ اور دوسرے گروہوں میں سے تقدیر کا انکار کرنے والے امر و نہی اور وعد و وعید کی تعظیم کرتے ہیں ؛ وہ ان لوگوں سے بہتر ہیں جو ترک مامور اور فعل محظور پر تقدیر سے حجت پیش کرتے ہیں ۔ حقیقت کے بلند بانگ دعاوی کرنے والوں مثلاً فقراء اور صوفیہ کو اکثر اس سے سابقہ پڑتا ہے وہ تقدیر کا بہانہ کر کے اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی سے انحراف کرتے ہیں ۔ یہ کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ تقدیر کے بل بوتے پر کوئی شخص اوامر کو ترک کر سکتا ہے نہ محرمات کا ارتکاب کر سکتا ہے، اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حجت تمام کر دی ہے۔ اوروہ قدریہ جو تقدیر سے معاصی کے ارتکاب کے جواز پر استدلال کرتے ہیں وہ فرقہ قدریہ سے بھی بدتر ہیں جو سرے سے تقدیر کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں کو قدریہ کہا گیا حالانکہ وہ تقدیر کے منکر نہ تھے۔ قدریہ کے نام سے موسوم کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ تقدیر سے معاصی کے جواز پر احتجاج نہیں کرتے تھے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے جب کہا گیا کہ:’’ ابن ابی ذئب منکر تقدیر تھے۔‘‘[1] تو انہوں نے فرمایا:جو شخص بھی معاصی کی بنا پر لوگوں کو تنگ کرتا تو لوگ اسے قدری کہہ کر پکارتے تھے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ قائلین تقدیر فواحش و منکرات پر تنقید کرنے والے کو نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھتے اور کہتے ہیں یہ بات ان کی تقدیر میں لکھی تھی۔ اس کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ منکرات پر رد و قدح بھی تقدیر الٰہی کے عین موافق ہے۔ گویا اس نے اپنے قول سے ہی اپنی دلیل کو توڑ دیا، بعض جاہل مشائخ کا قول ہے ’’ میں اس رب کو ماننے کے لیے تیار نہیں جس کی نافرمانی کی جاتی ہو اور اگر میں ستر انبیاء کو قتل کردوں تو میں گناہ گار نہ ہوں گا۔‘‘ ایک اور جاہل شیخ کا قول ہے: ’’میں وہی کام کرتا ہوں جو وہ مجھ سے کروانا چاہتا ہے، لہٰذا میرے سب کام عبادت میں داخل ہیں ۔‘‘ مسئلہ تقدیر میں احتجاج آدم علیہ السلام و موسیٰ علیہ السلام : بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تقدیر کی بنا پر احتجاج اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ یہ کھلی ہوئی جہالت ہے۔ اس لیے کہ انبیاء سب لوگوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کی اطاعت کرتے ہیں ۔ اور جس چیز کی اللہ تعالیٰ نے مذمت کی ہے؛ اس کی مذمت کرتے ہیں ۔ بیشک انہیں اطاعت الٰہی کا حکم دینے اور اس کی نافرمانی سے منع کرنے کے احکام کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے؛ پھر تقدیر کی بنا پر وہ اس کی نافرمانی کیوں کرسکتے ہیں ؟ مزید برآں حضرت آدم علیہ السلام نے بارگاہ ازدی میں اپنے گناہ سے توبہ کر لی تھی اور ان کی توبہ قبول کر لی گئی تھی۔ گناہ
[1] وابن أبِی ذِؤئب مِن أہلِ المدِینۃِ، وہو محمد بن عبدِ الرحمنِ بنِ المغِیرۃِ ابنِ الحارِثِ بنِ أبِی ذؤِئب القرشِی العامِرِی، توفِی سن ۱۵۸، قال مالِک بن أنس: لو بریِء ابن أبِی ذِئب مِن القدرِ، ما کان علی وجہِ الأرضِ خیر مِنہ، انظر ترجمتہ فِی فضلِ الِاعتِزالِ وطبقاتِ المعتزِلۃِ، ص۹۸، ۳۳۵، تہذِیب التہذِیبِ ۹؍۳۰۷۔۳۰۳۔ العلام: ۷؍ ۶۱۔