کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 202
ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متکلم ہے ؛ اور اسے بعض اشیاء سے سکوت سے موصوف کیا جاسکتا ہے۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی القدر ہے:
((الحلال ما أحلہ اللّٰہ فِی ِکتابِہِ، والحرام ما حرّمہ اللّٰہ فِی کِتابِہِ، وما سکت عنہ فہو مِما عفا عنہ ))۔ [1]
’’ حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے، اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے، اور جس کے بارے میں چپ رہے وہ معاف ہے۔‘‘
امام احمد رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ سلف فرماتے ہیں : ’’ بیشک اللہ تعالیٰ آواز کے ساتھ کلام کرتے ہیں ؛ لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ یہ معین آواز قدیم ہے۔‘‘
٭٭٭
[1] فِی سننِ التِرمِذِیِ:۳؍۱۳۴کتاب اللِباسِ باب ما جاء فِی لبسِ الفِراِء، ونصہ: سئِل رسول اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عنِ السمنِ والجبنِ والفِرائِ فقال: الحلال....الحدِیث۔وقال التِرمِذِی: وفِی البابِ عنِ المغِیرِ: ہذا حدِیث غرِیب لا نعرِفہ مرفوعا إِلا مِن ہذا الوجہِ، وروی سفیان وغیرہ عن سلیمان التیمِیِ عن أبِی عثمان قولہ: وکأن الحدِیث الموقوف أصح، والحدِیث أیضاً فِی: سننِ ابنِ ماجہ:۲؍۱۱۱۷کتاب الأطعِمۃِ، باب أکلِ الجبنِ والسمنِ، وذکرہ التبرِیزِی فِی مِشکاۃِ المصابِیحِ ؛ ونقل الألبانِی کلام التِرمِذِیِ۔ اس کی سند میں ہارون ضعیف ہے، لیکن شاہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے۔