کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 200
بالغ ہوجائے تو میرا یہ حکم اسے پہنچا دیا جائے، بعض اوقات وہ اپنی جائیداد وقف کرنے کی وصیت کرتا ہے جو عرصہ دراز تک باقی رہتی ہے اور اس نگران کے نام وصیت کرجاتا ہے، جو وصیت کے وقت پیدا بھی نہیں ہوا ہوتا۔ ٭....شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ یا سالم ! اے غانم ! [وغیرہ اگر غیر موجود غلام کا نام لے کر پکارنا حماقت کی دلیل ہے]۔‘‘ [انتہیٰ کلام الرافضی]۔ تو اس کا جواب یہ ہو کہ اگر مالک غیر موجود کوخطاب کے الفاظ میں پکارے تو اس کی قباحت میں کلام نہیں اور اگر اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ اس غلام کو پکار رہا ہے جس کا وجود متوقع ہے۔ مثلاً وہ یوں کہے کہ مجھے ایک صادق القول شخص نے بتایا ہے کہ میری لونڈی غانم نامی ایک بچہ جنے گی جب وہ بچہ پیدا ہو تو وہ آزاد ہے، میں اپنی اولاد کو بھی اس بات کی وصیت کرجاتا ہوں اوراے غانم![ پیدا ہونے والے بچے ]میں تمہیں فلاں فلاں بات کی وصیت کرتا ہوں یہ وصیت بالکل درست ہے؛ اس میں کوئی ممنوعہ بات نہیں ۔ اس لیے کہ یہ خطاب ایک ایسے بچہ سے ہے جو حاضرفی العلم مگر مشاہدہ کے اعتبار سے غائب ہے۔اورانسان بسا اوقات ان لوگوں سے خطاب کرنے کا خوگر ہے جو اس کے تصور اورخیال میں موجود ہوں اور خارج میں موجود نہ ہوں ، تخیل کے اسی عالم میں وہ ذہنی اشخاص سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’ اے فلاں ! کیا میں نے تجھ سے فلاں بات نہیں کہی تھی....؟ ‘‘ شیعہ اور اہل سنت سبھی نے روایت کیا ہے کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب آپ کا گزر صحرائے کربلا میں ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’ اے ابو عبداﷲ ! صبر کیجئے ؛ ’’ اے ابو عبداﷲ ! صبر کیجئے۔آپ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر رہے تھے۔‘‘ اس لیے کہ آپ کو علم ہو چکا تھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو عنقریب قتل کردیا جائے گا۔ یہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے کربلا میں آنے اورلوگوں کے آپ کی قتل کے درپے ہونے سے بہت پہلے کا واقعہ ہے ۔ اسی طرح سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے خروج دجال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے اﷲ کے بندو ! ثابت قدم رہنا ۔‘‘ [1] حالانکہ وہ لوگ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ ایسے ہی مسلمان اپنی نمازوں میں پڑھتے ہیں :’’ السلام علیک أیہاالنبی ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔‘‘تو اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس [جسمانی طورپر تو ] موجود نہیں ہوتے؛ مگر ان کے دلوں میں موجود ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اِِنَّمَا اَمْرُہُ اِِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ﴾ (یس:۸۲) ’’اس کا حکم تو، جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، اس کے سوا نہیں ہوتا کہ اسے کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہو جاتی ہے۔‘‘
[1] صحیح مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب ذکر الدجال،(حدیث:۲۹۳۷) مطولاً۔