کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 20
یہ قول ایاس بن معاویہ رحمہ اللہ سے منقول ہے، فرماتے ہیں : ’’ میں نے اپنی پوری عقل سے کام لے کر قدریہ فرقہ سے مناظرہ کیا اور دریافت کیا کہ ظلم کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا کسی دوسرے کی ملکیت میں تصرف کرنے کو ظلم کہتے ہیں ۔ میں نے کہا :’’جب ہرچیز اﷲ کی مملوک ہے تو وہ غیر کی ملکیت میں تصرف کیسے کرے گا؟‘‘ مگر یہ لوگ تو کسی جرم کا ارتکاب کیے بغیر بھی سزا دینے کو جائز تصور کرتے ہیں ، لہٰذا قصیر القامت کو چھوٹے ہونے؛ یا طویل القامت کو طویل ہونے اور سیاہ فام کو سیاہ ہونے کی بنا پر سزا دینے سے ان پر معارضہ نہیں کیا جا سکتا ۔ان کا خیال ہے کہ سزا دینا مشیت ایزدی کے تابع ہے۔ ظلم سے اﷲ تعالیٰ کی تنزیہ: دوسرا قول یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ ظلم پر قادر مگر اس سے منزہ ہے؛ یہ قدر کو ثابت ماننے والے جمہور علماء کا قول ہے۔ اور بہت سے متکلمین و مناظرین قائلین قدر کا عقیدہ ہے۔جیسا کہ کرامیہ ؛ اور امام ابو حنیفہ؛ امام مالک؛ امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کے بہت سارے اصحاب کا قول ہے۔اور قاضی ابو حازم نے بھی اس قول کو اختیار کیا ہے۔ جیسے کسی انسان کو کسی دوسرے شخص کے جرم کی سزا دینا، اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا یَخَافُ ظُلْمًا وَّلَا ہَضْمًا﴾ (طہ:۱۱۲) ’’جو ایمان دار ہواور پھر نیک اعمال انجام دے تو وہ کسی ظلم یا کمی سے نہیں ڈرے گا۔‘‘ ان لوگوں کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ انسان کو اختیاری یا غیر اختیاری افعال کی بنا پر سزا دینے کا فرق انسانی فطرت میں جا گزیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بلاشبہ جب کسی انسان کا ایک بیٹا ہو؛ اور اس کے جسم میں یا کوئی تخلیقی عیب ہو تو اس پر اس کی مذمت کرنا یا سزا دینا غیر مستحسن ہے۔لیکن اس کا یہی بیٹا اگر کسی پر ظلم کرے تو اسے سزا دینا مستحسن ہوگا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ:’’ تقدیر سے گناہوں پر استدلال کرنا عقلاً باطل ہے۔ اس لئے کہ دوسروں پر ظلم و ستم ڈھانے والا اگر تقدیر سے استدلال کرے گا (کہ میری تقدیر میں یوں ہی لکھا تھا) تو جو شخص اس کو ظلم کا نشانہ بناتا ہے، وہ بھی یہ دلیل پیش کر سکتا ہے۔اگر تقدیر حجت ہے تو دونوں کے حق میں حجت ہے؛ اور اگرحجت نہیں تو پھر کسی ایک کے بھی حق میں حجت نہیں ۔ اس سے یہ حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ معاصی کے ارتکاب پر تقدیر سے استدلال کرنا باتفاق ادیان و عقلاء باطل ہے۔ اور اس سے وہی شخص احتجاج کرتا ہے، جو اپنے اقوال میں تناقض کا شکار اور اپنی خواہش کا پیروکار ہو۔ جیسے یہ مقولہ مشہور ہے کہ: ’’ تم اطاعت کے وقت قدری اور معصیت کے وقت جبری بن جاتے ہو۔‘‘ مقولہ کا مطلب یہ ہے کہ تم ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہو جو مذہب اپنی خواہش کے موافق ہوا بس اسی کے ہو جاتے ہو۔‘‘ اگرظلم و قبائح کے مرتکب کے لیے تقدیر حجت ہوتی تو کوئی شخص دوسرے کو ملامت نہ کر سکتا اور نہ اسے سزا دے سکتا (کیونکہ مجرم آسانی سے کہہ سکتا تھا کہ میری تقدیر میں یونہی لکھا تھا)۔تو ظلم و فحاشی کا کرنے والا دوسرے کے اہل و مال اور