کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 199
نہیں ہوتا۔اور اس لیے بھی حوادث کی قابلیت اس کی ذات کے لوازم میں سے ہوتی ہے۔ یہ بہت ہی کمزور دلائل ہیں جن کا یہ لوگ التزام کرتے ہیں ؛ اور اس کا اعتراف ان کے بڑے بڑے ماہر علماء کرچکے ہیں کہ اس باب میں وارد تمام عقلی دلائل انتہائی کمزور ہیں ۔جبکہ شرعی دلائل وہ مثبتین صفات کے ساتھ ہیں منکرین کے ساتھ نہیں ۔ یہ کہنا کہ: اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے متکلم ہیں ؛ وہ جب چاہیں کلام کرتے ہیں ؛ کلام رب تعالیٰ کی ذات کے لوازم میں سے ہے؛ اس پر اتنے دلائل ہیں کہ ان کے اعداد و شمار سے یہ کتاب تنگ پڑجائے گی۔ اور جو قول بھی صحیح ہو ؛ ہمارے لیے اس کا اختیار کرنا ممکن ہے۔ امام رازی اور دیگر کہتے ہیں : تمام عقلاء پر لازم آتا ہے کہ وہ حواد ث کے اس کی ذات کے ساتھ قائم ہونے کا قول اختیار کریں ۔ پس جب یہ صحیح ثابت ہو جائے تو یہ کہنا بھی ممکن ہوگا کہ وہ اپنی مشئیت اور قدرت سے کلام کرتا ہے۔ اس باب میں ہم نے دانشمندوں کی عقول کی منتہیٰ پر تفصیل سے بات کی ہے۔ اور یہ بھی بتایا ہے جس پر کتاب و سنت اور سلف امت کے اقوال دلالت کرتے ہیں ؛ یہ تفصیل ہماری کتاب’’درء تعارض العقل و النقل ‘‘ اور دیگر کتب میں مل جائے گی۔ خلاصہ کلام ! جو بھی دلیل اس بات پر مبنی ذکر کی جائے کہ سکون ایک امر وجود ی ہے؛ اور بیشک اللہ تعالیٰ فاعل بنے ہیں ؛حالانکہ وہ پہلے فاعل نہ تھے؛ پس اس صورت میں حوادث غیر دائمی ٹھہریں گے۔اوریہ تو معلوم شدہ ہے کہ ان دونوں اقوال کا فاسد ہونا صاف ظاہرنہیں ہے؛خصوصاً تحقیق کے وقت ان دونوں اقوال یا ان میں سے ایک قول کی صحت ظاہر ہوتی ہے۔اور ان میں سے جو قول بھی صحیح ثابت ہوجائے ؛ تو اس کے ساتھ یہ کہنا بھی ممکن ہو جاتا ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ ایسا کلام کرتے ہیں جو اس کی مشئیت اور قدرت کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ ٭ اشاعرہ کہتے ہیں : جب یہ بات حق ہے ؛ تو جب ہم کہتے ہیں کہ: اس کا کلام اس کے ساتھ قائم ہوتا ہے؛ پس وہ اس کی مشئیت اور قدرت کے ساتھ معلق نہیں ہوتا؛ تو ہم نے حق بات تو کہی لیکن اس میں تناقض کا شکار ہوگئے۔ تو پھر بھی ہمارا قول ان لوگوں کے قول سے بہتر ہے جو کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ کا کوئی کلام ہی نہیں ؛سوائے اس کے جو وہ کسی دوسرے میں پیدا کرتا ہے۔ اور اس قول میں شریعت اور عقل کی مخالفت پائی جاتی ہے۔ چہارم :....اورہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ابھی تک کسی معدوم چیز کو خطاب کا اہل نہیں سمجھا گیا اور کسی چیز سے بشرطِ وجود مخاطب ہونا اس متکلم کے وجود کو تسلیم کرنے کی نسبت اقرب الی العقل ہے جس کا کلام اس کے ساتھ قائم نہ ہو اور رب ہونے کے باوصف جس سے صفات کمال مسلوب ہوں ۔ اﷲتعالیٰ نے جس عرض کو بھی کسی جسم میں پیدا کیا ہے وہ اس جسم کی صفت ہے خالق کی نہیں ۔ باقی رہا اس چیز سے مخاطب ہونا جو سر دست اگرچہ معدوم ہے تاہم اس کا وجود متوقع ہے تو اس میں شبہ نہیں کہ وصیت کنندہ بعض اوقات کہتا ہے، کہ میری موت کے بعد ایسا کریں ویسا کریں اور جب میرا فلاں بچہ