کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 198
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ مَآ اَصَابَکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ فَبِاِذْنِ اللّٰہِ وَ لِیَعْلَمَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (آل عمران ۱۶۶]
’’۱اور جو مصیبت تمھیں اس دن پہنچی جب دو جماعتیں بھڑیں تو وہ اللہ کے حکم سے تھی اور تاکہ وہ ایمان والوں کو جان لے۔‘‘
پس جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیکر آئے ہیں ؛ وہ محض حق ہے؛ اور اس کی تصدیق صریح معقول اور صحیح منقول سے ہوتی ہے۔ اور اس کے مخالف اقوال ؛ اگرچہ ان کے کہنے والے بڑی تعداد میں مجتہدین تھے؛ جن کی خطأ معاف ہے ؛ تاہم وہ علمی دلائل کی روشنی میں اس مؤقف کی نصرت کا ملکہ نہیں رکھتے۔ اور جن علمی دلائل سے اس پر قدح کی جاسکتی ہے؛ اس کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں ہے۔ اس لیے کہ صحیح عقلی دلائل صرف حق بات پر ہی دلالت کرتے ہیں ۔ اور وہ صحیح جوابات جو اپنے فریق مخالف کے دلائل کو باطل ثابت کرسکیں ؛وہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اس کے دلائل باطل ہوں بھی۔ اس لیے کہ باطل پر صحیح دلیل قائم نہیں ہوسکتی۔ اور جو چیز حق اور درست ہو اسے صحیح دلیل کے ذریعہ ختم نہیں کیا جاسکتا۔
یہاں پر یہ بتانا مقصود ہے کہ جو کوئی ایسی بات کہے؛ جس میں ایک لحاظ سے راستی پر ہو؛ اور ایک لحاظ سے غلطی کر رہا ہو؛ حتی کہ وہ اس میں اپنے ہی قول سے تناقض کا شکار ہو؛ اور اس طرح اس نے اپنی بات میں دو متناقض امور کو جمع کردیا ہو۔ وہ اپنے مخالف مناقض سے تسلیم شدہ جدلی مقدمہ میں کہہ رہا ہو: میرا تناقض ان دو میں سے کسی ایک بات میں میرے غلطی پر ہونے پر دلالت کر رہا ہے۔اور جو قول اس کے التزام سے تم مجھ پر لازم ٹھہرا رہے ہو؛ وہ تمہارے قول کی صحت پر دلالت نہیں کر رہا۔بلکہ یہ ممکن ہے کہ میرا دوسرا قول درست ہو۔
اشاعرہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام مخلوق نہیں ہے۔اور اس لیے بھی کہ یہ اس امت کے اسلاف اور ائمہ کا عقیدہ ہے۔اوراس پر شرعی اورعقلی دلائل موجود ہیں ؛ جب ان سے کہا جائے کہ قرآن کریم کے قدیم ہونے کا قول ممتنع ہے۔ تو ان کے لیے یہ کہنا ممکن ہے کہ : جو لوگ اسے غیر مخلوق کہتے ہیں ؛ ان کے ہاں مزید دو اقوال ہیں ؛ جیسا کہ اس سے پہلے گزرچکا۔ اوران میں سے کوئی ایک قول بھی لازم نہیں آتا؛ وگرنہ جو لوگ اسے مخلوق کہتے ہیں ؛ ان کا عقیدہ اس سے بڑی خرابی اور فساد پر مشتمل ہے۔
عقل مند انسان آگ کی گرمی سے پناہ نہیں طلب نہیں کرتا؛اگر وہ اپنے مؤقف کو چھوڑ دیتا ہے؛ تووہ مرجوح قول سے راجح کی طرف رجوع کرتا ہے۔اور جو لوگ کہتے ہیں : ’’ بیشک اللہ تعالیٰ اپنی مشئیت اور قدرت سے کلام کرتے ہیں ؛ حالانکہ اس سے پہلے وہ متکلم نہیں تھا؛ اس میں معتزلہ اور ان جیسے دیگر لوگوں کے لیے ان کے خلاف کوئی حجت نہیں ؛سوائے صفات کی نفی کی حجت کے۔ اور یہ حجت بھی انتہائی بیکار اوربودی ہے۔کلابیہ کے پاس ان کے خلاف کوئی دلیل ہے ہی نہیں ؛ سوائے اس کے کہ اس سے دوام حوادث لازم آتا ہے۔ اس لیے کہ کسی چیز کا مقابل اس سے او راس کی ضد سے خالی