کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 19
یہ تھی تو وہ حانث ہو گیا۔ رہا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے بیٹے کو ذبح کر دینے کا امر تو وہ رب تعالیٰ کو محبوب بھی تھا اور نفس الامر میں رب تعالیٰ نے ان سے اس بات کا ارادہ بھی کیا تھا۔ وہ یوں کہ جنابِ ابراہیم علیہ السلام نے امتثالِ امر کا قصد کیا اور فرمانبرداری کا عزم کیا۔ پس رب تعالیٰ نے سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کے امتحان اور آزمائش کے لیے یہ امر ظاہر فرمایا تھا۔ پس جب دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور جنابِ ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل زمین پر لٹا دیا تو رب تعالیٰ نے انہیں آواز دی کہ اے ابراہیم! تحقیق تو نے وہ خواب سچ کر دکھایا اور ہم نیکو کاروں کو یوں بھی بدلا دیا کرتے ہیں ، اور یہی بات پچاس نمازوں کے امر کے بارے میں بھی ہے۔ فصل:....مسئلہ قدراور رافضی الزام کا رد [ اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’اہل سنت کا یہ قول چند قبائح پر مشتمل ہے۔ ایک قباحت یہ ہے کہ اس سے اﷲ تعالیٰ کا سب ظالموں سے بڑا ظالم ہونا لازم آتا ہے۔ اس لیے کہ وہ کافر کو کفر کے جرم کی سزا دیتا ہے، حالانکہ اس نے خود ہی اسے کفر کی قدرت عطا کی، اور ایمان کی قدرت سے محروم رکھا، جس طرح کسی کواس کے رنگ یا طویل القامت یا قصیر القامت ہونے پر سزا دینا ظلم ہے، اسی طرح اس معصیت کی سزا دینا بھی ظلم ہے جو خود اﷲ تعالیٰ نے اس میں پیدا کی۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب]:اس کا جواب اس سے پہلے بھی گزر چکا ہے کہ ظلم کی تفسیر میں تقدیر کو ثابت ماننے والے جمہور کے دو قول ہیں : پہلا قول یہ ہے کہ: ظلم ممتنع لذاتہٖ ہے اور اﷲ تعالیٰ ظلم کرنے پر قادر نہیں ۔ امام اشعری، قاضی ابوبکر، ابوالمعالی، قاضی ابو یعلیٰ اور ابن الزاغونی رحمہم اللہ کی یہی رائے ہے۔ ان کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ ذات باری تعالیٰ دروغ گوئی ، ظلم اور افعال قبیحہ پر قادر نہیں اور نہ اسے ان کے ساتھ موصوف کیا جا سکتا ہے۔ ذات باری سے ان افعال کا صدور اس لیے محال ہے کہ ظلم و قبح کا فاعل شرعاً مذموم ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت میں ظلم اور قباحت کی مذمت کو واجب کیا ہے۔ اور قابل مذمت وہی فاعل ہوتا ہے، جو ناروا کام کرے اور ایسے فعل کا مرتکب ہو جس کا حق اسے حاصل نہ ہو۔یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب فاعل اس چیز میں تصرف کرے جس میں تصرف کرنے کا حق اس کی نسبت کسی اور کو حاصل ہو۔ بنا بریں ظلم کا صدور اﷲ سے محال ہے، کیوں کہ اس کے تصرفات کا مالک کوئی دوسرا شخص نہیں ہو سکتا، اس تقریر سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے، کہ اﷲ کے حق میں ظلم کا تصور بھی محال ہے۔ مذکورہ بالا قول کی حقیقت یہ ہے کہ قابل مذمت وہ فاعل ہے، جو غیر کی مملوکہ چیز میں دست درازی کا ارتکاب کرتاہو اوراپنے سے اوپر والے کے حکم کی نافرمانی کرتا ہو۔ ظاہر ہے کہ کوئی شخص اﷲ کو اپنے احکام کا مامور و مکلف نہیں بنا سکتا اور نہ ہی اﷲتعالیٰ غیر کی ملکیت میں تصرف کرتا ہے، اس لیے کہ وہ سب چیزوں کا مالک ہے۔