کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 189
امت کے اجماع کی مخالفت زیادہ واضح اور ظاہرہے۔اس لیے کہ نصوص الٰہیہ اور نصوص سلف امت میں اللہ تعالیٰ کی صفات اور ؛ اس کی رؤیت ؛ اور علو کا ہونا متواتر اور مشہور اخبار سے ثابت ہے۔
جب کہ اس کے منکرین نہ ہی کتاب اللہ پر اعتماد کرتے ہیں اور نہ ہی نصوص سنت پر اور نہ ہی اجماع امت پر ۔ بلکہ وہ ان سب کے مقابلہ میں اپنی فاسد آراء و افکار پیش کرتے ہیں ؛اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے تابعدار صحابہ مہاجرین و انصار اور ان کے متبعین کے مقابلہ میں اپنی آراء سے اٹکل اڑاتے ہیں ۔
جہاں تک تناقض کی بات ہے؛ تو بلا شک و شبہ منکرین رؤیت کہتے ہیں : ’’بیشک اللہ تعالیٰ موجود تو ہے مگر نہ ہی عالم کے داخل میں ہے اور نہ ہی خارج میں ۔اور نہ ہی اس سے مبائین ہے اور نہ ہی وہ کسی چیز کے قریب ہے؛ اورنہ ہی کوئی چیز اس کے قریب ہے۔اور نہ ہی کوئی اسے دیکھ سکتا ہے۔اور نہ ہی کسی ایک چیز کو چھوڑ کر دوسری چیز کو اس کے دیدار سے روکا جاسکتا ہے۔اور نہ ہی کوئی چیز اس کی طرف چڑھتی اور نہ ہی اس کی طرف سے نازل ہوتی ہے۔ اس طرح کے ان کے دیگر عقائد و افکار بھی ہیں ۔
جب ان سے کہا جاتا ہے: یہ عقیدہ عقل کے مخالف ہے؛ یہ صفات ایسے معلوم معدوم کی ہیں جس کا وجود ممتنع ہے۔ تو وہ کہتے ہیں : یہ نفی وہم کے حکم سے ہے۔
پس ان سے کہا جائے گا: جب عقل پر کوئی ایسی چیز موجود چیز پیش کی جائے جو جسم نہ ہو کہ بذات خود قائم ہو؛ تو اس کا دیکھا جانا ممکن ہے؛اور عقل اس کے سامنے ہو؛ تو وہ اس بات کا انکار نہ کریں گے۔ پس جب اس کے ساتھ ہی ان سے یہ کہا جائے : ’’بیشک اللہ تعالیٰ کو بلا مقابلہ دیکھا جاسکتا ہے۔ پس اگر یہ کہا گیا کہ : ایسا ہونا ممکن ہے؛ تو ان کا عقیدہ باطل ٹھہرا۔ اور اگر یہ کہا گیا کہ: یہ ایسا معاملہ ہے کہ عقل اسے ممنوع ٹھہراتی ہے۔ تو ان سے کہا جائے گا: جس چیز کو تم واجب اور موجود کہتے ہو؛ عقل اسے اس سے بڑا ممتنع ٹھہراتی ہے۔
اگر تم کہتے ہو: یہ نفی وہم کے حکم سے ہے۔
تو تم سے کہا جائے گا کہ: تو پھراس صورت میں اس کا انکار وہم کے حکم میں ہونے کا زیادہ حق دار ہے۔
اور اگر تم کہو کہ: یہ انکار عقل کا حکم ہے۔
تو تم سے کہا جائے گا کہ: تو پھر اس کا انکار بھی بدرجہ اولیٰ انکار عقلی ہونے کا حق دار ہے۔
بیشک تم کہتے ہو کہ: وہم کا حکم باطل ہے؛ کہ کوئی ایسا حکم لگایا جائے جو نہ ہی محسوس ہے اور نہ محسوس کے حکم میں ہے۔ پس اس صورت میں جب تم نے کہا کہ: بیشک باری تعالیٰ غیر محسوس ہیں ؛ تو یہ بھی ممکن ہے کہ تم اس میں وہ حکم قبول کرلو جو محسوس میں ممتنع ہوتا ہے؛ اور وہ بلا مقابلہ امتناع رؤیت ۔
اگر تم کہو کہ: بیشک وہ محسوس ہے؛ اور اس کا احساس ہونا ممکن ہے؛ تو اس میں وہم کا حکم باطل نہیں ہوگا؛ لیکن یہ ممتنع ہو جائے گا کہ نہ ہی وہ عالم کے داخل میں ہو اور نہ ہی خارج میں ۔ پس اس صورت میں اس کی رؤیت جائز ٹھہرے گی۔