کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 181
سو وہ ان بتوں کو سفارشی اور وسیلہ مانتے تھے نا کہ خالق، فرمایا: ﴿قُلْ لَّوْ کَانَ مَعَہٗٓ اٰلِہَۃٌ کَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰی ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلًاo﴾ جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہے: ﴿قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ فَلَا یَمْلِکُوْنَ کَشْفَ الضُّرِّعَنْکُمْ وَ لَا تَحْوِیْلًاo اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًاo﴾ (الاسراء: ۵۶۔ ۵۷) ’’کہہ پکارو ان کو جنھیں تم نے اس کے سو اگمان کر رکھا ہے، پس وہ نہ تم سے تکلیف دور کرنے کے مالک ہیں اور نہ بدلنے کے۔ وہ لوگ جنھیں یہ پکارتے ہیں ، وہ (خود) اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں ، جوان میں سے زیادہ قریب ہیں اور اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔ بے شک تیرے رب کا عذاب وہ ہے جس سے ہمیشہ ڈرا جاتا ہے۔‘‘ معلوم ہوا کہ اللہ کے سوا جو فرشتوں وغیرہ کو پکارا جاتا ہے تویہ رب تک وسیلہ بنانے کے لیے پکارا جاتا ہے۔ کیونکہ معبود برحق وہی ہے۔ اس سب کے محتاج ہیں کہ وہ رب ہے، اس سے سب ملا ہے اور الٰہ ہونے کے اعتبار سے اس کے بغیر اس کے ارادہ کی منتہا نہیں ۔ اگر وہ ہی معبود نہ ہوتا تو یہ عالم برباد ہو جاتا۔ کیونکہ اگر ارادات کا مراد لذاتہ نہ ہوتا اور مراد یا تو لنفسہ ہے یا لغیرہ ہے اور مراد لغیرہ کے لیے لازم ہے کہ وہ غیر مراد ہے۔ تاکہ امر مراد لنفسہ تک منتہی ہو۔پس جیسے علت فاعلیہ میں تسلسل ممنوع ہے؛ ایسے ہی علتِ غائیہ میں بھی تسلسل ممنوع ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ارسطو اور اس کے متبعین قدیم فلاسفہ نے اس طریقہ سے اول کو ثابت کیا ہے؛ لیکن انہوں نے اسے صرف علت غائیہ کی جہت سے ثابت کیا ہے؛ لیکن ان لوگوں نے علت غائیہ کو تشبہ کے معنی میں قرار دیا ہے۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں : فلسفہ بقدر طاقت الہ سے مشابہت ہے۔ وہ اسے ایسے معبود اور محبوب لذاتہ قرار نہیں دیتے جیسے رسول یہ پیغام لیکر آئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ متأخرین میں سے جو کوئی ان کے طریقہ پر تصوف اختیار کرتا ہے؛ اور عبادت گزاری کرتا ہے؛ وہ الوہیت اور ربوبیت کا دعوی بھی کر بیٹھتا ہے۔ ان میں فرعونیت کی ایک قسم پائی جاتی ہے۔ بلکہ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جوفرعون کی بڑی تعظیم کرتے ہیں اور اسے حضرت موسی علیہ السلام پر فضیلت دیتے ہیں ؛ اور یہ بات ان میں سے ایک گروہ کے کلام میں پائی جاتی ہے۔ جب کہ ان دونوں چیزوں کو ثابت کرنا واجب ہے: ۱۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کے رب ہیں ۔۲۔ وہی ہر ایک چیز کے معبود برحق ہیں ۔پس جب حرکات ارادیہ اس کی مراد لذاتہ کے بغیر قائم نہیں ہوسکتیں ؛ اس کے بغیر فساد اور خرابی پیدا ہو جاتی ہے؛ تو یہ بھی جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور مراد لذاتہ ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی دوسرا موجود لذاتہ نہیں ہے۔ اور اگر زمین و آسمان ؛ان دونوں میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہوتے تو وہ دونوں کا نظام ضرور بگڑ جاتا۔