کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 180
مِنْ اِِلٰہٍ اِِذًا لَذَہَبَ کُلُّ اِِلٰہٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یَصِفُوْنَo عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَتَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَo ﴾ (المؤمنون: ۸۳۔ ۹۲)
’’کہہ یہ زمین اور اس میں جو کوئی بھی ہے کس کا ہے، اگر تم جانتے ہو؟ ضرور کہیں گے اللہ کا ہے۔ کہہ دے پھر کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟ کہہ ساتوں آسمانوں کا رب اور عرش عظیم کا رب کون ہے؟ ضرور کہیں گے اللہ ہی کے لیے ہے۔ کہہ دے پھر کیا تم ڈرتے نہیں ؟ کہہ کون ہے وہ کہ صرف اس کے ہاتھ میں ہر چیز کی مکمل بادشاہی ہے اور وہ پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں پناہ نہیں دی جاتی، اگر تم جانتے ہو؟ ضرور کہیں گے اللہ کے لیے ہے۔ کہہ پھر تم کہاں سے جادو کیے جاتے ہو؟ بلکہ ہم ان کے پاس حق لائے ہیں اور بے شک وہ یقیناً جھوٹے ہیں ۔ اللہ نے نہ کوئی اولاد بنائی اور نہ کبھی اس کے ساتھ کوئی معبود تھا، اس وقت ضرور ہر معبود، جو کچھ اس نے پیدا کیا تھا، اسے لے کر چل دیتا اور یقیناً ان میں سے بعض بعض پر چڑھائی کر دیتا۔ پاک ہے اللہ اس سے جو وہ بیان کرتے ہیں ۔ غائب اور حاضر کو جاننے والا ہے، پس وہ بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں ۔‘‘
ان کا شرک یہ نہ تھا کہ انہوں نے ان بتوں کو خالق بنا رکھا تھا۔ بلکہ انہوں نے ان بتوں کو عبادت میں واسطہ مقرر کیا ہوا تھا وہ انہیں سفارشی بناتے تھے اور ان کی عبادت اللہ کا قرب پانے کے لیے کرتے تھے۔ جیسا کہ رب تعالیٰ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے:
﴿وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَضُرُّہُمْ وَ لَا یَنْفَعُہُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ ہٰٓؤُلَآئِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ قُلْ اَتُنَبِّؤنَ اللّٰہَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِ سُبْحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَo﴾ (یونس: ۱۸)
’’اور وہ اللہ کے سوا ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انھیں نقصان پہنچاتی ہیں اور نہ انھیں نفع دیتی ہیں اور کہتے ہیں یہ لوگ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں ۔ کہہ دے کیا تم اللہ کو اس چیز کی خبر دیتے ہو جسے وہ نہ آسمانوں میں جانتا ہے اور نہ زمین میں ؟ وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں ۔‘‘
اب جن لوگوں نے اللہ کے سوا کو فاعل مستقل بنا رکھا ہے جیسے آدمی اور فلک، انہوں نے ان حوادث کو اللہ کی مخلوق نہیں ٹھہرایا۔ ان میں وہ شرک اور تعطیل ہے جو مشرکین عرب میں بھی نہ تھا۔ کہ قدر کا اقرار تو وہ بھی کرتے تھے اور ایک اللہ کو ہر شی کا خالق مانتے تھے۔ اسی لیے دوسری آیت میں ارشاد ہے:
﴿قُلْ لَّوْ کَانَ مَعَہٗٓ اٰلِہَۃٌ کَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰی ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلًا﴾ (الاسراء: ۳۲)
’’کہہ دے اگر اس کے ساتھ کچھ اور معبود ہوتے، جیسا کہ یہ کہتے ہیں تو اس وقت وہ عرش والے کی طرف کوئی راستہ ضرور ڈھونڈتے۔‘‘