کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 18
ارادہ کی اس تقسیم کو متعدد اہلِ سنت نے ذکر کیا ہے، اور یہ کہا ہے کہ محبت اور رضا و ارادہ نہیں جو جملہ مخلوقات کو شامل ہو۔ جیسا کہ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد وغیرہم رحمہم اللہ کے اصحاب نے ذکر کیا ہے، جیسے ابوبکر عبدالعزیز وغیرہ، اگرچہ ایک جماعت محبت اور ضا کو ارادہ قرار دیتی ہے لیکن پہلا قول صحیح ترہے۔
دوسرے یہ فرق بھی واضح ہے کہ ارادہ کرنے والے کا کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرنا اور بات ہے اور اس کا کسی دوسرے سے یہ ارادہ کرنا کہ وہ اسے کرے، اور بات ہے، اور امریہ ارادۂ ثابتہ کو مستلزم نہیں ، بہ نسبت پہلی قسم کے ارادہ کے۔ رب تعالیٰ جب اپنے بندوں کو کسی کام کے کرنے کا امر فرماتا ہے تو وہ اس بات کا ارادہ کرتا ہے کہ وہ مامور کی ماموریہ پر اعانت کرے گا، اور بسا اوقات وہ حکم دینے کے باوجود اس اعانت کا ارادہ نہیں کرتا۔
اللہ کے امر کے بارے میں نزاع کی بابت قولِ فیصل کی تحقیق یوں ہے کہ: کیا یہ امر اللہ کے ارادہ کو مستلزم ہے یا نہیں ؟ پس جب معتزلہ کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ بات ناگزیر ہے کہ جس بات کا وہ امر دیتا ہے، اسے چاہتا ہے اور اس کا ارادہ کرتا ہے او ریہ کہ اس نے منع اسی بات سے کیا ہے جس کے وجود کو اس نے نہیں چاہتا اور نہ اس کا ارادہ کیا ہے۔ اب قدر کو ثابت کرنے والے بیشتر متاخرین نے، جو اصولِ فقہ وغیرہ میں ابوالحسن کے پیروکار اور امام مالک و شافعی و احمد کے اصحاب میں سے ہیں ، ان لوگوں کو یہ جواب دیا ہے کہ بے شک اللہ ایسی بات کا بھی حکم دیتا ہے جو وہ چاہتا نہیں ۔ جیسے کفر، فسق اور عصیان۔
ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر کوئی ’’ان شاء اللہ‘‘ کہہ کر کسی واجب کے ضرور کرنے کی قسم اٹھائے تو نہ کرنے پر وہ حانث [قسم توڑنے والا]نہ ہوگا۔ اور دوسری دلیل یہ ہے کہ رب تعالیٰ نے جنابِ ابراہیم علیہ السلام کو بیٹا ذبح کرنے کا حکم دیا تو ضرور تھا۔ لیکن اس کو ان سے چاہا نہ تھا۔ بلکہ کر گزرنے سے قبل ہی اسے منسوخ کر دیا تھا۔ اسی طرح معراج کی رات میں پچاس نمازوں کا امر کا معاملہ ہے۔
اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایسی بات کا بھی امر کرتا ہے جس کے پیدا کرنے کو اس نے نہیں چاہا۔ البتہ وہ صرف اسی بات کا امر کرتا ہے جو اسے محبوب اور پسند ہو اور چاہتا ہو کہ بندہ وہ کرے۔ اس معنی میں کہ وہ اسے پسند کرتا ہے، اور کفر رہا اور فسق و عصیان تو رب تعالیٰ اسے چاہتا نہیں اور نہ اسے پیدا کر کے بندے کی اس پر اعانت کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے اگر کسی نے ان شاء اللہ کہہ کر کسی واجب کی قسم اٹھائی پھر اس نہ کیا تو وہ حانث ہوگا۔ چاہے وہ کوئی واجب ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اگر اس نے ’’اگر اللہ نے پسند کیا‘‘ کہہ کر قسم اٹھائی تو نہ کرنے کی صورت میں حانث ہوگا۔ یہی حکم: ’’اگر اللہ نے حکم دیا‘‘ کہہ کر قسم اٹھانے کا ہے۔
اگر یہ کہا: میں یہ ضرور کروں گا جب اللہ نے ارادہ کیا تو اس کا ارادہ سے مراد محبت ہے۔ جیسا کہ لوگ برائی کرنے والے سے یہ کہتے ہیں : ’’یہ ایسے کاموں میں لگا ہے جن کو اللہ نے نہیں چاہا۔‘‘ اور کبھی اس کی مراد مشیئت ہوتی ہے۔ جیسا کہ لوگ نہ ہونے والے کام کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ: ’’اس بات کا اللہ نے ارادہ نہیں کیا تھا۔‘‘ پس اگر تو اس کی مراد