کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 178
البتہ دو خالقوں کے اوپر کچھ نہیں ۔ رہا یہ قول کہ دونوں وہ کریں گے جو مصلحت ہو گا وغیرہ۔ سو ہر حادث دونوں کے تابع اور ان سے حادث ہو گا۔ ہر شی دونوں کے علم و قدرت سے ہو گی۔ بخلاف مخلوق کے جو متعدد امور کو دوسرے کے بغیر حادث کرتی ہے اور دوسری مصلحت کے امر میں اس کی معاونت کرتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ دونوں آئندہ ہونے والے امر کو جانتے ہیں ۔ پس حادث کا علم معلومِ حادث کے تابع ہوا اور حادث اپنے محدث کے ارادہ کے تابع ہوا۔ رہے دو خالق تو دونوں میں سے ہر ایک کے ارادہ کا اس کی ذات کے لوازم میں سے ہونا لازم ہے۔ یا وہ مستقل بالارادہ ہو۔ تب پھر ایک کا ارادہ دوسرے کے ارادہ کی شرط پر موقوف نہ ہو گا۔ وگرنہ وہ مستقل بالارادہ نہ ہو گا اور نہ یہ اس کی ذات کے لوازم میں سے ہو گا۔ کیونکہ جب ہر ایک کا ارادہ اور فعل دوسرے کے ارادہ اور فعل کے ساتھ ہو گا تو ہر ایک کا ارادہ اور فعل مقتضی کا جز ہو گا۔ کیونکہ دوسرا مرید فاعل ہے اور یہ جزئِ علت میں دور ہے۔ جیسے ابوت اور بنوت دونوں متلازم ہیں ۔ کیونکہ دونوں کا مقتضی تام ان کا غیر ہے۔ اگر ارادہ اور فعل متلازم ہوں تو دونوں کا مقتضی تام دونوں کا غیر ہو گا اور یہ ممتنع ہے۔ کیونکہ دونوں خالقوں سے اوپر کچھ نہیں جو انہیں ایسا بنا دے۔ سو لازم آیا کہ دونوں نہ مرید ہوں اور نہ فاعل سو معلوم ہو گیا کہ اگر دو قدرت میں پلہ الٰہ ہوں تو اتفاق اور اختلاف دونوں احوال میں وہ کچھ نہ کریں گے۔ تب پھر ایک کا دوسرے سے زیادہ قدرت والا ہونا لازم ہو گا۔ کہ ایک دوسر پر قدرت میں بالضرور عالی ہو گا۔ سو اگر متعدد الٰہ ہوتے تو ان کا ایک دوسرے پر غاب آنا واجب ہوتا۔ تب پھر کوئی بھی مستقل بالذات نہ ہوتا۔ مگر اکیلا عالی الٰہ۔ کیونکہ اگر تو مقہور فعل میں دوسرے عالی کی اعانت کا محتاج ہے تو وہ عاجز ہوا اور اس کی قدرت غیر سے ہوئی اور جو ایسا ہو وہ الٰہ بنفسہ نہیں ہو سکتا۔ سو اللہ نے اپنی مخلوقات میں سے کسی کو بھی الٰہ نہیں بنایا۔ سو مقہور کا الٰہ ہونا ممتنع ہوا اور اگر مقہور فعل میں مستقل ہو تو عالی الٰہ اسے فعل سے روک نہیں سکتا اب پھر عالی عاجز ٹھہرا۔ تب پھر معلوم ہوا کہ الٰہ کے ایک دوسرے پر غالب آنے کی صورت میں مغلوب الٰہ نہیں ۔ نہ وہ دوسرے کی اعانت کے وقت الٰہ ہے اور غناء عن الآخر کے وقت الٰہ ہے۔ کیونکہ غنی پر کوئی عالی نہیں ہو سکتا۔ وگرنہ تو وہ عالی کا محتاج اور عاجز ہو گا اور غیر سے مغلوب زبردست اور اپنے پر سے دوسرے کو دور کرنے والا نہیں ہوتا تو وہ اوروں پر سے کسی کو کیونکر دور کرے گا؟ تو جب مغلوب الٰہ منیع نہ ہوا۔ تو قوی و قادر بدرجہ اولیٰ نہ ہوا اور غیر قوی رب اور فاعل نہیں ہوتا۔ غرض یہ ان دو برہانوں کی قدرے تفصیلی تقدیر ہے۔ جو بتلاتی ہے کہ خارج اور وجود دو ایسے الٰہ نہیں جو ایک دوسرے کے شریک اور ہم پلہ ہوں اور نہ کوئی ثالث ہو گا جس کی طرف وہ رجوع کریں گے کہ دو ہم پلہ بادشاہ بھی ایک دوسرے کی طرف رجوع نہیں کرتے اور تو اور ایک ہانڈی پکانے والے دو باورچی ایک دوسرے کی طرف رجوع نہیں کرتے۔ اسی طرح دو مستری اور دو شجر کار ایک دوسرے کی طرف رجوع نہیں کرتے۔ اسی طرح دو امر کرنے والے، دو طبیب، دو درزی بھی۔ ان سب مشارکات میں دو کا اتفاق متصور نہیں ۔ مگر تب کہ جب ایک ان میں سے دوسرے پر فائق ہو۔ یا دونوں کے