کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 177
اور مرجح کی محتاج ہو گی۔ جس سے علل میں تسلسل لازم آئے گا جو سب عقلاء کے نزدیک ممتنع ہے۔ پھر یہ کہ دونوں کافی نفسہ اتفاق بھی ممتنع ہے اور اختلاف بھی ممتنع ہے۔ چاہے اسے لازم فرض کیا جائے اور چاہے نہ کیا جائے۔ کیونکہ اتفاق کے وقت ایک کو اس وقت فعل کرنا ممکن ہو گا جب دوسرا کرے گا۔ سو اتفاق کے وقت دونوں کسی فعل میں مستقل ہونے سے عاجز ہوں گے۔ تو جب دونوں اتفاق کے وقت فعل مستقل سے عاجز ہیں تو عندالانفراد بھی عاجز ہوں گے اور جو عندالانفراد ہر شی سے عاجز ہو، وہ عندالاتفاق بدرجہ اولیٰ عاجز ہو گا۔ شریک لوگوں میں سے ہر ایک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اشتراک کے وقت دوسرے سے فعل میں منفرد ہو۔ کیونکہ وہ حرکت جو دونوں میں سے کوئی کرتا ہے وہ حالِ تمکن میں دوسرے کے بغیر اس کے ساتھ مستقل ہوتا ہے۔ اسی طرح سے مالِ انفراد میں دوسرے کے بغیر کوئی اثر چھوڑنا ممکن ہوتا ہے۔ پس ایسے دو کا اتفاق ممتنع ٹھہرا چاہے وہ مخلوق یا خالق کہ جس میں دونوں میں سے ہر ایک حالتِ انفراد میں عاجز ہو، چاہے اتفاق لازم ہو یا ممکن۔ اگر مخلوق میں فرض کر لیا جائے کہ دو مخلوق اجتماع کے وقت قادر ہوں گی۔ تو یہی بات ہے۔ کیونکہ یہاں ایک تیسرا بھی ہے جو دونوں میں اتفاق و اجتماع کے وقت قدرت پیدا کرتا ہے اور یہاں یہ بات ممتنع ہے کہ خالق قدیم واجب بنفسہ سے اوپر کوئی ایسا ہو جو اسے قادر بنائے تو یہ بھی ممتنع ہوا کہ دونوں کے اوپر کوئی ہو جو اجتماع کے وقت نا کہ انفراد کے وقت دونوں میں قوت پیدا کرے۔ کیونکہ ان دونوں الٰہ کے ماسوا تو سب مخلوق ہو گا۔ پس مخلوق کا خالق کو قادر بنانا ممتنع ہو گا۔ رہا ان کے اختلاف کا امتناع، گو وہ لازم نہ بھی ہو، تب بھی زیادہ ظاہر ہے۔ کیونکہ اختلاف کے وقت تمانع حاصل ہوگا۔غرض یہ وہ معانی ہیں کہ جن کی جس طرح چاہے تعبیر کو لو صحیح ہیں ۔ کہ: دو الٰہ کا وجود ممتنع ہے چاہے وہ باہم متفق ہوں یا ان کا اختلاف ہو۔ سوائے اس صورت کے جب ہر ایک حالت انفراد میں قادر ہو۔ تو جب ہر ایک حالت انفراد میں قادر ہو گا تو دونوں میں سے ہر ایک کا ایسا فعل اور مفعول ہو گا جو اس کے ساتھ خاص اور دوسرے سے منفرد ہو گا۔ تب پھر وہ کسی بھی فعل یا مفعول میں متفق نہ ہوں گے اور نہ سرے سے کسی ایک شی میں متفق ہی ہوں گے۔ کیونکہ فعل حادث جو ایک کے ساتھ قائم ہو گا۔ وہ نہ ہو گا جو دوسرے کے ساتھ قائم ہو گا۔ کیونکہ یہ ممتنع لذاتہ ہے۔ مخلوق منفصل کہ اس میں جو ایک کا نفس اثر ہے وہ دوسرے کا نفس اثر نہ ہو گا۔ بلکہ دو اثروں کا ہونا لازم ہے۔ پھر اگر ایک اثر دوسرے کے لیے شرط ہوا تو ہر ایک دوسرے کا محتاج ہو گا۔ تو وہ حالتِ انفراد میں قادر نہ ہو گا اور اگر ایسا نہیں تو ایک کا مفعول دوسرے کا مفعول نہ ہو گا اور نہ اس کا لازم ہو گا۔ تو یہاں سرے سے ایک مفعول میں بھی اتفاق نہ ہو گا۔ یہ ہر الٰہ کے اپنی مخلوق کو لے جانے جیسے کلام کی جنس میں سے۔ لیکن یہاں خاص بات یہ ہے کہ جب دو ایسی شی ہوں کہ دونوں میں سے ہر ایک کا دوسرے کے ساتھ ہونا شرط ہو۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ کوئی تیسرا ہو جو ان دونوں کو حادث کر لے۔ جیسے ایک معلم کے دو مزدور نصوص کی طرف رجوع کرنے والے دو مفتی، ایسے امر کی طرف رجوع کرنے والے دو مشورہ کرنے والے جو دونوں کو مجتمع کر دے۔ لہٰذا یہاں ایک تیسرا ضروری ہے جو دونوں کو جمع کر دے۔