کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 175
عقلی دلیل نہیں اور نہ کس عادتِ عامد کی طرف اس کی استناد ہے۔ ہم نے ایک مقام پر اس بحث کو مفصل بیان کر دیا ہوا ہے۔رب تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
﴿اِِذًا لَذَہَبَ کُلُّ اِِلٰہٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ﴾ (المومنون: ۹۱)
جب یہ لازم منتفی ہوا تو ملزوم بھی منتفی ہوا۔ جو اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ کا ثبوت ہے اور تلازم کا بیان یہ ہے کہ جب اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ ہوں گے تو اللہ کا خلق عالم میں مستقل ہونا ممتنع ٹھہرے گا۔ جبکہ اللہ ہی خلق عالم میں مستقل ہے۔ جیسا کہ گزرا کہ اس کا فاسد ہونا ہر عاقل کے نزدیک ضروری طور پر معلوم ہے اور یہ کہ یہ جمع بین النقیضین ہے۔
یہ بھی ممتنع ہے کہ دو رب میں سے ایک دوسرے کا مشارک اور معاون ہو کہ اس سے دونوں کا عجز لازم آتا ہے اور عاجز کوئی شی نہیں کرتا۔ لہٰذا نہ تو وہ رب ہو گا اور نہ الٰہ۔ کیونکہ جب ان میں سے ایک دوسری کی اعانت سے ہی قادر بنے گا تو انفرادی حالت میں اس کا عجز لازم آیا اور اس کا اجتماع کے حال میں قادر ہونا بھی ممتنع ٹھہرا۔ کیونکہ یہ ’’دورِ قبلی‘‘ ہے۔ کیونکہ ان میں سے ایک دوسرے کے قادر بنائے بغیر قادر نہ بنے گا۔ یا اس کی مدد کے بغیر قادر نہ بنے گا۔
پس جب اس کے ساتھ دوسرے الٰہ کو فرض کیا جائے گا تو لازم ہو گا کہ عندالانفراد سب قادر ہوں اور ایسا ہے نہیں ۔ لہٰذا یہ قول باطل ٹھہرا۔
اسی طرح اگر ایک کا فعل دوسرے کے فعل کو مستلزم ہو، وہ یوں کہ جب تک دوسرا فعل نہ کر لے یہ فعل نہ کرے گا تو لازم آئے گا کہ دونوں میں سے ہر ایک عندالانفراد غیر قادر ہے اور دونوں اصل فعل میں تعاون کے محتاج ٹھہریں گے اور یہ بالضرور ممتنع ہے۔
غرض واضح ہو گیا کہ اگر اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہ ہوتے تو ہر ایک اپنی اپنی مخلوق لے کر چلتا بنتا۔ لیکن ایسا غیر واقع ہے۔ کیونکہ عالم کی ہر چیز دوسرے کے ساتھ مرتبط ہے۔ جیسا کہ گزرا۔ اس لیے جب دو متعاون ایک کام کریں گے دونوں میں سے ہر ایک کے ساتھ قائم فعل دوسرے کے فعل سے ممتاز ہو گا۔
رہا وہ جو اس سے خارج میں حادث ہوتا ہے۔ تو وہ کسی کو ممکن نہیں بنائے گا کہ وہ اپنے سے منفضل شی کے ساتھ مستقل ہو۔ بلکہ اس کا ایک معاون ہونا بقول اس کے ضروری ہے یہ جو کہتا ہے کہ: بندے کا فعل مباشر اور غیر مباشر میں منقسم ہوتا ہے اور رہا وہ جو یہ کہتا ہے کہ اس کا فعل اس کے محل قدرت سے خارج نہیں ہوتا، سو اس کا کوئی منفصل منعول نہیں ہے پھر جب ایک کا مفعول دوسرے کے مفعول سے خلط ملط ہو جائے گا۔ جیسے دو لکڑیاں اٹھانے والے تو اجتماع کے وقت دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کا محتاج ہو گا اور ہر ایک کی انفرادی اور اجتماعی حالت میں ایک خاص قدرت ہو گی جو اس کے لیے یہ ممکن بنائے گی کہ وہ اس قدرت کے ذریعے وہ فعل کرے جس سے وہ دوسرے سے منفرد اور ممتاز ٹھہرے۔ لہٰذا دونوں میں سے ہر ایک کے لیے ایسا فعل ہونا لازم ہے جو اس کیساتھ خاص ہو اور دوسرے کے فعل سے ممتاز ہو۔ لہٰذا دو الٰہ مقصود نہ ہوں گے؛حتی کہ ایک کا مفعول دوسرے کے مفعول سے ممتاز ہو۔ پھر ہر ایک اپنی اپنی مخلوق کو لے جائے۔ تو