کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 174
﴿مَا اتَّخَذَ اللّٰہُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا کَانَ مَعَہٗ مِنْ اِِلٰہٍ اِِذًا لَذَہَبَ کُلُّ اِِلٰہٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ﴾ (المومنون: ۹۱)
’’اللہ نے نہ کوئی اولاد بنائی اور نہ کبھی اس کے ساتھ کوئی معبود تھا، اس وقت ضرور ہر معبود، جو کچھ اس نے پیدا کیا تھا، اسے لے کر چل دیتا اور یقیناً ان میں سے بعض بعض پر چڑھائی کر دیتا۔‘‘
رب تعالیٰ نے اس آیت میں اس بات پر دو یقینی برہان پیش کیے ہیں کہ اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا الٰہ نہیں ۔ وہ دو برہان یہ ہیں :
﴿اِِذًا لَذَہَبَ کُلُّ اِِلٰہٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ﴾ (المومنون: ۹۱)
یہ بات معروف ہے کہ ہر الٰہ اپنی مخلوق کو نہیں لے گیا اور نہ ایک سے زیادہ الٰہ ایک دوسرے پر غالب آئے ہیں اور اس کے ذکر کو اس لیے ترک کیا کیونکہ مخاطبین اس کو جانتے ہیں اور یہ کہ اس کا ذکر بے جا کی تطویل تھا۔ یہ ہے قرآن کا طریقہ جو صحیح اور فصیح و بلیغ ہے۔ بلکہ خطاب میں خود عوام کا یہ طریق ہے کہ وہ محتاجِ بیان مقدمہ کو تو ذکر کرتے ہیں اور جس کے بیان کی احتیاج نہ ہو اسے ترک کر دیتے ہیں ۔
جیسے یہ کہا جائے کہ تم یہ کیوں کہتے ہو کہ ہر نشہ لانے والی شی حرام ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک صحیح حدیث میں ارشاد منقول ہے:
’’ہر نشہ نے والی شی شراب ہے اور ہر شراب حرام ہے۔‘‘[1]
یہ بات معلوم ہے کہ قولِ رسول حجت اور واجب الاتباع ہے کہ اس کے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اسی کے مثل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لَوْ کَانَ فِیْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا﴾ (الانبیاء: ۲۲)
’’اگر ان دونوں میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہوتے تو وہ دونوں ضرور بگڑ جاتے۔۔‘‘
یعنی جب دونوں نہیں بگڑے تو معلوم ہوا کہ دونوں میں اللہ کے سوا اور الٰہ نہیں ہیں اور یہ بات اس قدر واضح ہے کہ محتاجِ بیان نہیں ۔ کیونکہ خطاب سے مقصود بیان ہوتا ہے اور واضح کو بیان کرنا بسا اوقات ایک قسم کا ضیاعِ وقت بن جاتا ہے اور بیانِ دلیل کبھی ایک مقدمہ کا محتاج ہوتا ہے اور کبھی دو مقدمات کا اور کبھی تین کا اور کبھی اس سے زیادہ کا سو مستبدل اتنے ہی مقدمات بیان کرتا ہے جن کی احتیاج ہوتی ہے۔
رہی منطقیوں کی یہ بات کہ ہ دلیل نظری میں دو مقدمات کا ہونا ضروری ہے کہ نہ اس سے زیادہ کی ضرورت اور نہ اس سے کم پر گزارہ اور جب ایک مقدمہ پر اکتفاء کیا جائے تو کہتے ہیں کہ دوسرا مقدمہ حذف ہے اور اسے قیاسِ ضمیر کا نام دیتے ہیں ۔ اور اگر تین یا چار مقدمات ہوں تو کہتے ہیں : یہ قیاسات ہیں نا کہ ایک قیاس۔ یہ نرا دعویٰ ہے۔ جس کی کوئی
[1] صحیح مسلم: کتاب الاشربۃ، باب بیان ان کل مسکر خمر۔