کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 173
دوسرے کی وجہ سے مستقل ہو؟ سو دونوں میں سے ہر ایک کو مستقل فرض کرنا اس بات کو مقتضی ہے کہ دونوں میں سے ہر ایک نے یہ فعل مستقل کیا ہو اور دوسرے نے اس میں کچھ بھی نہ کیا ہو۔ سو اس سے دو بار اجتماعِ نقیضین لازم آئے گا۔ اسی لیے یہ بات ممتنع ہو گی کہ دونوں میں سے ہر ایک موثر، تام، مستقل اور ایک اثر پر جمع ہو۔ اس کی مثال میں ہم یہ کہتے ہیں کہ: اس نے یہ کپڑا اکیلے سیا ہے اور اس نے بعینہ وہ کپڑا اکیلے سیا ہے۔ یا: اس نے یہ کھانا اکیلے کھایا ہے۔ یا اس نے بعینہ وہ کھانا اکیلے کھایا ہے۔ یہ سب باتیں تصور کرنے کے بعد عقل بدیہہ کے نزدیک ممتنع ہیں ۔ لیکن بعض لوگ اس کو عمدہ طریق سے تصور نہیں کرتے۔ بلکہ اس کے ذہن میں لوگوں کے دو شریک آتے ہیں جو ایک فعل میں مشترک ہوں اور دو مشترک میں سے کسی نے بھی وہ فعل اکیلے پورے کا پورا نہیں کیا ہوتا اور نہ اس کی قدرت اشتراک کی وجہ سے حاصل ہوئی ہوتی ہے۔ بلکہ اشتراک سے اس کی قدرت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور دونوں میں سے ہر ایک کو عندالانفراد ایک شی کرنا ممکن ہوتا ہے اور وہ دوسرے کے ارادہ کے خلاف ارادہ کر سکتا ہے۔ پھر اگر اس نے اس کے خلاف کا ارادہ کیا اور دونوں کی قدرت ایک دوسرے کے ہم پلہ ہے، تو دونوں منع ہو جائیں گے اور دونوں کچھ نہ کریں گے اور ایک زیادہ قوی ہوا تو وہ دوسرے پر غالب آجائے گا اور اگر عندالانفراد دونوں میں سے ایک کو قدرت نہیں تو اسے اجتماع کے وقت جو قدرت حاصل ہو گی وہ دوسرے سے ہو گی۔ باوجود یہ کہ اس کا وجود معروف نہیں ۔ بلکہ معروف ی ہے کہ عندالانفراد دونوں میں سے ہر ایک کو قدرت حاصل ہو۔ جو اجتماع کے وقت کامل ہو جائے گی۔ یہ بھی کہ فعل اور مفعول میں مشترک کے لیے لازم ہے کہ ہر ایک کا فعل دوسرے سے ممتاز ہو اور بعینہ شیء واحد مشترک نہ ہو۔ وہ یوں کہ دونوں نے اس کو کیا ہو۔ کہ یہ بھی ممتنع ہے جیسا کہ گزرا۔پھر اگر دو رب ہوتے تو دونوں میں سے ہر ایک کی مخلوق دوسرے کی مخلوق سے ممتاز ہوتی۔ جیسا کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اِِذًا لَذَہَبَ کُلُّ اِِلٰہٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ﴾ (المومنون: ۹۱) ’’اس وقت ضرور ہر معبود، جو کچھ اس نے پیدا کیا تھا، اسے لے کر چل دیتا اور یقیناً ان میں سے بعض بعض پر چڑھائی کر دیتا۔‘‘ اس آیت میں رب تعالیٰ نے دو مفعول کے امتیاز کے وجوب کو دونوں میں سے ایک کے دوسرے پر غالب آ جانے کے وجوب کو ذکر کیا ہے۔ جیسا کہ اس کی تقریر گزر چکی ہے اور یہ دونوں باتیں ممتنع ہیں ۔ غرض یہ آئمہ نظار ان جیسے طرق سے توحید ربوبیت کو بیان کرتے ہیں ۔ یہ طرق صحیح اور عقلی ہیں لیکن یہ متاخرین ان طرق کی توجیہ و معرفت کی راہ نہیں پا سکے۔ پھر یہ متقدمین متکلمین گمان کرتے ہیں کہ یہ قرآنی طرق ہیں ، حالانکہ ایسا نہیں ۔ بلکہ قرآن نے اس توحید الوہیت کو پختہ کیا ہے جو توحید ربوبیت کو متضمن ہے اور قرآن نے اس کو ان لوگوں سے زیادہ کامل بیان کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: