کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 165
مثلاً امام رازی، علامہ آمدی اور ان کے نظائر و امثال۔ یہ لوگ اثبات توحید و صفات کمال میں امام جوینی رحمہ اللہ سے کم درجہ کے تھے۔ علی ہذا القیاس اس ضمن میں امام جوینی، قاضی ابوبکر، ابن الطیب رحمہم اللہ اور ان کے معاصرین سے فروتر درجہ کے تھے، اور یہ لوگ کسی طرح بھی امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتے۔ [1]جبکہ امام اشعری کا درجہ ابو محمد بن کلاب سے نیچے ہے اور ابن کلاب اس ضمن میں ائمہ سلف کی ہم سری کا دعویٰ نہیں کر سکتے ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ متکلمین میں سے جو لوگ تقدیر کے قائل ہیں وہ منکرین تقدیر معتزلہ و شیعہ کی نسبت اثبات توحید و صفات کمال میں ان سے کہیں بہتر ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قائلین تقدیر باری تعالیٰ کے لیے کمال قدرت، کمال مشیت، کمال خلق اور اس کے منفرد ہونے کا اثبات کرتے ہیں ؛ اور کہتے ہیں کہ وہ تنہا تمام اعیان و اعراض کا خالق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رائے میں قوت اختراع اﷲتعالیٰ کی خصوصی صفت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قدرت اختراع اﷲتعالیٰ کے جملہ خصائص میں سے ایک ہے اور صرف یہی صفت اس کی خصوصی صفت نہیں ۔ بخلاف ازیں تقدیر کا انکار کرنے والے شیعہ و معتزلہ حیوان کے احوال کو اﷲ کی مخلوق قرار نہیں دیتے، دراصل ان کے نزدیک ان حوادث کا کوئی بھی خالق نہیں ، بلکہ ان کو انجام دینے والے اﷲ کے شریک ہیں ، جو ان حوادث کے فاعل ہیں ۔ متاخرین قدریہ میں سے بہت سے لوگ بندوں کو ان کا خالق قرار دیتے ہیں ، البتہ متقدمین قدریہ اس سے احتراز کرتے تھے۔ پھر متکلمین اہل اثبات رب تعالیٰ کے لیے خیات، علم، قدرت، کلام، سمع اور بصر جیسی صفاتِ کمال کا اثبات کرتے ہیں ۔ ان لوگوں نے ان صفات کو ثابت تو کیا ہے لیکن بعض صفات کی بابت کوتاہی کر گئے ہیں ۔ چنانچہ ان لوگوں نے توحید میں کوتاہی کی اور یہ سمجھے کہ کمالِ توحید توحید ربوبیت ہے اور اس توحید الوہیت کی جانب نہ بڑھے جس کو اللہ کے پیغمبر لے کر آئے اور جس کو لے کر آسمانی کتابیں اتریں ۔
[1] متکلمین کے احوال و کوائف سے واقفیت رکھنے والا ہر شخص دو حقیقتوں سے کلیۃً آگاہ ہے: ۱۔ پہلی بات یہ ہے کہ متکلمین اسلامی حقائق کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھنے والوں کے مقابلہ میں کلامی فلسفہ کے اسالیب کو ایک شرعی ضرورت تصور کیا کرتے تھے، البتہ عرصہ دراز تک اسے جاری رکھنے کی بنا پر وہ ان اسالیب و اطوار کے خوگر ہو گئے تھے۔ ۲۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ آگے چل کر جب ان میں پختگی کے آثار پیدا ہوئے تو نور الٰہی کی بدولت ان پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ ان کلامی مباحث سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ لاحق ہورہا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں ان اسالیب کو ترک کرنے کا میلان پیدا ہوا، اور وہ عقائد میں سلف صالحین کی پیروی کرنے لگے۔ قبل ازیں بیان کیا جاچکا ہے کہ امام جوینی کی کتاب ’’الرسالۃ النظامیۃ‘‘میں ہے کہ جب ابو جعفر ہمدانی نے علو کے موضوع پر آپ سے تبادلہ افکار کیا تو امام جوینی طریق سلف کی جانب لوٹ آئے تھے، اس سے بھی عمدہ ترین واقعہ یہ ہے جو امام اشعری کو ان کی زندگی کے تیسرے دور میں پیش آیا اور اسی پر۳۲۴ھ میں ان کی زندگی کا خاتمہ ہوگیا، یہ واقعہ ان کی تصنیف ’’کتاب الابانۃ ‘‘ میں مذکور ہے جو ان کی آخری کتاب ہے۔ (شذرات الذہب: ۲؍ ۳۰۳ نیز مجلۃ الازھر، م:۲۶ ؍ ۳۱۔ ۳۳)۔یہ تیسرا دور ۳۰۳ہجری سے شروع ہوتاہے؛جس میں انہوں نے سلف کی موافقت کی ہے۔