کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 16
ان لوگوں کا کہنا ہے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے چاہا وہ ہوگیا ؛ جو نہیں چاہا وہ نہیں ہوا۔ پس ہر وہ چیز جسے اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اسے یقیناً اس نے پیدا کردیا۔ جب کہ محبت کا تعلق اس کے امر سے ہے۔ پس جس چیز کے کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے؛ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔ اسی لیے فقہائے کرام کا اتفاق ہے کہ اگر قسم اٹھانے والا یوں کہے کہ: ’’اللہ کی قسم ! اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو میں فلاں کام کروں گا۔‘‘پھر وہ وہ کام نہ کرے ؛ تو اس سے اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی۔ اگرچہ وہ کام واجب یا مستحب ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اس کے برعکس اگر یہ کہا کہ : اللہ تعالیٰ نے پسند کیا تو میں وہ کام کروں گا؛ اوروہ کام واجب یا مستحب ہو۔ تو پھر اس کے نہ کرنے پر اس کی قسم ٹوٹ جائے گی۔ محققین کا قول ہے کہ’’ارادہ کا لفظ قرآن کریم میں دو معنوں میں استعمال ہوا ہے: ۱۔ ارادہ خُلقیہ قدریہ کونیہ ۲۔ارادہ امریہ شرعیہ دینیہ‘‘ ارادہ کونیہ قدریہ جملہ حوادث کو شامل ہے جب کہ ارادہ دینیہ شرعیہ محبت و رضا پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ عام مسلمانوں کا کا عقیدہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے چاہا وہ ہوگیا اور جو نہیں چاہا وہ نہیں ہوا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآئِ ﴾ (الانعام:۱۲۵) ’’تو وہ شخص جسے اللہ ہدایت دیناچاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہتا ہے اس کا سینہ تنگ، نہایت گھٹا ہوا کر دیتا ہے، گویا وہ مشکل سے آسمان میں چڑھ رہا ہے۔‘‘ دوسری جگہ حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق ارشاد فرمایا: ﴿وَ لَا یَنْفَعُکُمْ نُصْحِیْٓ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَکُمْ اِنْ کَانَ اللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یُّغْوِیَکُمْ ہُوَ رَبُّکُمْ وَ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ﴾ (ھود ۳۳) ’’اور میری نصیحت تمھیں نفع نہ دے گی اگر میں چاہوں کہ تمھیں نصیحت کروں ، اگر اللہ یہ ارادہ رکھتا ہو کہ تمھیں گمراہ کرے، وہی تمھارا رب ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ اس ارادہ کا تعلق اضلال و اغواء کے ساتھ ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کی وہ مشیئت ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں تو ہوجاتی ہے۔اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ ﴾ (البقرۃ:۲۵۳) ’’لیکن اللہ تعالیٰ جو کچھ چاہتے ہیں وہ کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی جس چیز کو اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں پیدا کر دیتے ہیں ؛ اس کے لیے حکم نہیں دیتے۔ کبھی ارادہ سے محبت[پسند] مراد لی جاتی ہے۔ جیسا کہ فحاشی کا کام کرنے والے سے کہا جاتا ہے کہ : یہ ایسا کام ہے جس کا ارادہ اللہ تعالیٰ نہیں کرتے؛ مراد یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کام کو پسند نہیں کرتے۔ اور کبھی اس سے مشیئت بمعنی