کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 15
لیے کوئی کام نہیں کرتے۔ ہم اس سے پہلے یہ بیان کرچکے ہیں کہ یہ چند ایک لوگوں کا عقیدہ ہے؛ جن میں امام اشعری بھی شامل ہیں اوروہ گروہ بھی جو اس مسئلہ میں ان کی موافقت رکھتے ہیں ۔ مگر دوسرے مقام پر وہ اپنے اس عقیدہ کے خلاف کہتے ہیں ۔ جب کہ جمہور اہل سنت والجماعت اللہ تعالیٰ کے افعال میں حکمت و غرض کو ثابت مانتے ہیں ۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کے افعال بندوں کے نفع اور ان کی مصلحت کے پیش نظر ہوتے ہیں ۔ لیکن ان کا عقیدہ ایسے بھی نہیں جیسے معتزلہ اور ان کے موافقین کا عقیدہ ہے ؛جو چیز اللہ تعالیٰ کے ہاں حسن ہو؛ وہ مخلوق میں بھی حسن ہی ہوگی اور جو کچھ اس کی مخلوق میں قبیح ہو وہ اس کے ہاں بھی قبیح ہوگی۔ ایسا کچھ بھی نہیں ۔جہاں تک لفظ غرض کا تعلق ہے؛ تو معتزلہ اور بعض اہل سنت کی طرف منسوب یہ کہتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ غرض کے لیے افعال بجا لاتا ہے؛ اور مراد حکمت ہوتی ہے۔ اور بہت سارے اہل سنت اس کے لیے حکمت کا لفظ ہی استعمال کرتے ہیں ؛ وہ اس کے لیے لفظ غرض کا اطلاق نہیں کرتے ۔
ارادہ کی دو قسمیں :
شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ اہل سنت کے نزدیک اﷲ تعالیٰ کافر سے معاصی کا ارادہ کرتا ہے؛ اس سے اطاعت گزاری مطلوب نہیں ہوتی ‘‘اہل سنت کا صرف ایک گروہ یہ عقیدہ رکھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جوقدریہ کے ہم خیال ہیں ؛اور جو ’’ ارادہ اور مشئیت اور رضا اور محبت ‘‘ کو صرف ایک ہی قسم قرار دیتے ہیں اور محبت و رضا اور غضب کو ارادہ کا مترادف تصور کرتے ہیں ۔امام اشعری کے دونوں اقوال میں سے مشہور تر قول یہی ہے، ان کے اکثر اصحاب و اتباع اور ان کی موافقت رکھنے والے فقہاء جو کہ امام مالک؛ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے ساتھیوں میں سے ہیں ؛ وہ بھی اسی کے قائل ہیں ۔
بخلاف ازیں تمام طوائف میں سے جمہور اہل سنت اور امام اشعری رحمہ اللہ کے بہت سارے ساتھی اور ان کے علاوہ دوسرے لوگ ارادہ، محبت اور رضا میں فرق کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں :’’اﷲ تعالیٰ معاصی کا ارادہ تو کرتا ہے۔‘‘ مگر انہیں چاہتا نہیں اور ان سے راضی بھی نہیں ہوتا، بلکہ ان پر ناراض ہوتا ہے؛ ان سے بغض رکھتا ہے اور ان سے منع کرتا ہے۔اس قول کے قائلین اللہ تعالیٰ کی مشیئت اور اس کی محبت کے مابین فرق کرتے ہیں ۔اور یہی تمام سلف صالحین کا قول ہے۔ ابو المعالی الجوینی نے ذکر کیا ہے کہ قدیم اہل سنت و الجماعت کا یہی عقیدہ تھا ۔ پھر ابو الحسن الأشعری نے اس کی مخالفت کی اور محبت اور ارادہ کو ایک ہی شمار کرنے لگا۔[1]
[1] مستجی زادہ نے اس پر یہ تبصرہ کیا ہے کہ : ’’میں نے امام الحرمین کے کلام میں دیکھا ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ کو کفر پر راضی رہتے ہیں اور اس کو پسند کرتے ہیں ؛ اللہ تعالیٰ ایسی باتوں سے بہت بلند ہیں ؛ اللہ آپ کو معاف کرے؛ آپ کی آراء میں بہت بڑا اختلاف پایا جاتا تھا۔ چنانچہ آپ ایک جگہ پر عقیدہ کی کتاب میں ایک بات کہتے ہیں ؛ تو دوسری جگہ عقیدہ کی دوسری کتاب میں اس کے برعکس بات کہتے ہیں ۔ چنانچہ آپ نے ایک جگہ’’الارشاد ‘‘ میں لکھا ہے: ’’ جس چیز کو ہم اللہ کا دین سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ افعال انسان کے اختیار میں ہوتے ہیں ؛ بندے کی قدرت کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اس کی ایجاد ہیں ۔ جبکہ ’’الرسالہ النظامیہ ‘‘ میں دوسری جگہ پر لکھتے ہیں : ’’بندے کی قدرت اور فعل کا اس میں اثر ہوتا ہے ۔‘‘حتی کہ ’’المقاصد ‘‘ کے شارح نے ’’الارشاد ‘‘ میں وارد اس کلام سے دلیل لیتے ہوئے امام سے اس قسم کے کلام کے صادر ہونے کاانکار کیا ہے۔ شاید کہ اس شارح تک رسالہ نظامیہ نہ پہنچا ہو۔