کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 148
قبول کر۔‘‘ اوراﷲتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْٓ اِلَیْہِمْ﴾ (ابراہیم: ۳۷) ’’اے ہمارے رب! بے شک میں نے اپنی کچھ اولاد کو اس وادی میں آباد کیا ہے، جو کسی کھیتی والی نہیں ، تیرے حرمت والے گھر کے پاس، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم کریں ۔ سو کچھ لوگوں کے دل ایسے کر دے کہ ان کی طرف مائل رہیں ۔‘‘ اوراﷲتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَاٰیَۃٌ لَہُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَہُمْ فِی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِo وَخَلَقْنَا لَہُمْ مِّنْ مِّثْلِہٖ مَا یَرْکَبُوْنَ﴾ (یس: ۳۱۔۳۲) ’’اور ایک نشانی ان کے لیے یہ ہے کہ بے شک ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔ اور ہم نے ان کے لیے اس جیسی کئی اور چیزیں بنائیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں ۔‘‘ اب کشتی بنی آدم کی مصنوعات میں سے ہے اور یہ رب تعالیٰ کے اس قول کی مثل ہے: ﴿وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ (الصافات: ۹۶) ’’حالانکہ اللہ ہی نے تمھیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم کرتے ہو ۔‘‘ مثبّتین قدر کی ایک جماعت کا قول ہے کہ یہاں ’’ما‘‘ مصدریہ ہے اور مراد یہ ہے کہ اس نے تمھیں اور تمھارے اعمال کو پیدا کیا ہے۔ یہ بے حد ضعیف تفسیر ہے۔ صحیح یہ ہے کہ یہاں ’’ما‘‘ الذی کے معنی میں ہے اور مراد یہ ہے کہ اللہ نے تمھیں اور ان بتوں کو پیدا کیا جن کو تم بناتے ہو۔ جیسا کہ حدیث حذیفہ رضی اللہ عنہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’رب تعالیٰ نے ہر صانع کو اور اس کی صنعت کو پیدا کیا ہے۔‘‘[1] اور رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَo وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ (الصافات: ۹۶) ’’تم اس کی عبادت کرتے ہو جسے خود تراشتے ہو؟ حالانکہ اللہ ہی نے تمھیں پیدا کیا تمہارے عمل کو ۔ ‘‘ رب تعالیٰ نے ان تراشے ہوئے بتوں کی عبادت کرنے پر ان کی مذمت اور ان پر انکار کیا ہے۔ پھر یہ بیان فرمایا کہ رب تعالیٰ اس عابد کا، اس معبود اور اس تراشے ہوئے بت کا خالق ہے اور عبادت کا مستحق وہی اللہ ہے۔ اگر یہ مراد لیا جائے کہ اس نے تمھیں اور تمھارے جملہ افعال کو پیدا کیا ہے تو یہ مناسب نہ ہو گا کیونکہ اس نے ان کی
[1] صحیح الجامع الصغیر للالبانی: ۱۱۶، عن حذیفۃ رضی اللّٰہ عنہ ۔