کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 141
وجود واجب ہے اور مانتے ہیں کہ داعی اور قدرت کا خالق اللہ ہے تو لازم آیا کہ بندوں کے افعال کا خالق اللہ ہو۔
ان ماہرین علمائے معتزلہ نے ان دو نوں مقدمات کو تو تسلیم کیاہے؛ لیکن اس کا نتیجہ ماننے سے انکاری ہیں ؛اور طوسی جسے یہ امامی بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اس نے ’’تلخیص المحصل‘‘ میں رازی کی دلیل کو ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
’’مرجح تام کے وجود کے وقت فعل کا وجود واجب ہے اور اس کے عدم کے وقت ممتنع ہے۔ تو معتزلہ کا قول بالکلیہ باطل ہو گیا۔ یعنی جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ وہ جواز کے طور پر فعل کترا ہے جیسا کہ ان کا مشہور مذہب یہی ہے تو طوسی اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے: یہ بات بارہا ذکر کی جا چکی ہے کہ مختار ممکن کی دو طرفوں میں بسے ایک کو دوسری پر ترجیح دے سکتا ہے۔ بلا مرجح کے۔ یہاں یہ حکم محال ہے۔پھر موثر کی احتیاج اور اثر کے حصول کے عدم کے امتناع کی تقدیر پر کہتا ہے: معتزلہ کا قول بالکلیہ باطل ہو گیا۔‘‘
وہ کہتا ہے: یہ اعتراض وارد نہیں ۔ کیونکہ وہ لکھتا ہے کہ ابو الحسین معتزلہ میں سے ہے؛ اور ایک دوسری جگہ پر ذکر کیا ہے کہ معتزلہ میں سے ایک آدمی کا یہ عقیدہ ہے۔اور یہاں یہ کہتا ہے کہ وہ اس طرف گیا ہے کہ قدرت اور ارادہ مقدور کے وجود کو واجب کرتے ہیں تو پھر ان کا قول بالکلیہ کیونکر باطل ٹھہرا؟
اس کا بیان یہ ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں : اختیار کا معنی صرف قدرت کی نسبت کے اعتبار سے دونوں اطراف کی برابری ہے اور ارادہ کے اعتبار سے دونوں میں سے کسی ایک کے وقوع کا وجوب ہے۔ پس جب مرجح تام پایا جائے گا اور یہ ارادہ ہے تو فعل واجب ہو گا اور جب وہ حاصل نہ ہو گا تو فعل ممتنع ہو گا اور یہ صرف قدرت پر قیاس کرتے ہوئے طرفین کے استواء کے منافی نہیں ۔ تب پھر وہ لزوم جو اس نے ذکر کیا ہے، وہ ان کے قول کے ابطال میں قطعی نہیں ۔
میں کہتا ہوں : وہ قول جس کے بطلان کو رازی نے قطعی کہا ہے، وہ ان کا مشہور قول ہے۔ وہ یہ کہ فعل داعی پر موقوف نہیں بلکہ قادر دو میں سے ایک طرف کو دوسری پر بلامرجح کے راجح کرتا ہے۔ پھر اس کا داعی فعل کو حادث کرتا ہے جیسے ارادہ اور یہ صرف اس کے قادر ہونے کے ذریعے ہے۔ جبکہ اس کے وجود اور عدم کی طرف نسبت کے اعتبار سے قدرت کی برابر ساتھ ہو۔اب کبھی تو داعی کی تفسیر علم، یا اعتقاد یا ظن سے کر دی جاتی ہے اور کبھی ارادہ سے اور کبھی ان سب سے، اور کبھی اس سے جس پر مراد مشتمل ہو، جو اس کے ارادہ کو مقتضی ہو۔
رازی کہتے ہیں : ابو الحسین کے قول میں تناقض ہے۔ کیونکہ رازی نے اقوال میں ان لوگوں کا قول بھی نقل کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ فعل داعی پر موقوف ہے۔ لہٰذا جب قدرت حاصل ہو گئی اور اس کے ساتھ داعی بھی مل گیا تو دونوں مل کر فعل کے وجود کی علت بن گئے۔
رازی کہتے ہیں : یہ جمہور فلاسفہ کا قول ہے اور ابو الحسین بصری اوردیگر معتزلہ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ اگرچہ ابوالحسین ایک غالی معتزلیہ ہے حتیٰ کہ اس نے اس بات تک کا دعویٰ کر دیا ہے کہ اس بات کا علم ضروری ہے کہ بندہ اپنے افعال کا موجد ہے البتہ پھر بھی اس کا یہ مذہب تھا کہ فعل داعی پر موقوف ہے۔ تو جب استواء کے وقت فعل کا وقوع ممتنع ہوا