کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 140
علماء اسلاف میں سے زبیدی نے اس کی مطلق نفی کی ہے۔ یہ لغت کے مشہور معنی کے اعتبار سے ہے کیونکہ جبر و اجبار کا لغوی اطلاق مجبور کے بلا ارادہ فعل پر ہوتا ہے جس میں ناگواری کا پہلو بھی ہوتا ہے۔ جیسے باپ اپنی بیٹی کو نکاح پر مجبور کرے اور یہ معنی رب تعالیٰ کے حق میں منتفی ہے، کیونکہ وہ بندے کے فعل اختیاری کو اس کے اختیار کے بغیر پیدا نہیں کرتا۔ بلکہ اسی نے تو بندے کو مرید مختار بنایا ہے اور اس بات پر سوائے اللہ کے کسی کو قدرت نہیں ۔ اسی لیے اسلاف میں سے کسی کا قول ہے کہ اللہ جبر کرنے سے بلند و برتر ہے۔ دوسرے کو تو وہی مجبور کرتا ہے جس نے اسے مختار نہ بنایا ہو۔ اللہ نے بندے کو مختار بنایا ہے، اس لیے اسے جبر کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اسی لیے اوزاعی اور زبیدی وغیرہ کا قول ہے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس نے جبلت بنائی اور یہ نہیں کہتے کہ اس نے مجبور کیا۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہوا ہے کہ اشج عبدالقیس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :
: تم میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کو رب تعالیٰ پسند فرماتے ہیں ۔ ایک بردباری اور دوسرے وقار۔ اس نے عرض کیا کہ: کیا ان دونوں خصلتوں کو میں نے اپنایا ہے یا میں ان پر پیدا کیا گیا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں تمہاری اس پر جبلت ہے۔ تو اس نے عرض کیا: سب تعریف اس اللہ کی ہے جس نے مجھے ایسی خصلتوں پر پیدا کیا ہو اسے محبوب ہیں ۔‘‘[1]
سو لفظ جبر سے نفس وہ فعل مراد ہو گا جو وہ چاہے اگرچہ اس نے بندے کا اختیار بھی پیدا کیا ہے۔ جیسا کہ محمد بن کعب قرظی کا قول ہے کہ جبار وہ ہے جو بندے کو اس پر مجبور کرے جو اس نے ارادہ کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ماثور ایک دعا کے یہ الفاظ ہیں :
’’اے اللہ! اے پھیلی چیزوں کو پھیلانے والے، اے بلند چیزوں کو بلند کرنے والے! دلوں کو اپنی فطرت پر سعادت والی یا شقاوت والی فطرت پر مجبور کرنے والے!‘‘
اگر تو جبر سے یہ مراد ہو تو یہ حق ہے اور اگر پہلا معنی مراد ہو تو وہ باطل ہے۔ لیکن مطلق طور پر بولتے وقت پہلا معنی مفہوم ہوتا ہے۔ جبکہ یہ اطلاق جائز نہیں ہے۔
جب سائل یہ کہے کہ میں نے جبر سے اس کا دوسرا معنی مراد لیا ہے؛ یعنی رب تعالیٰ کا بندے کو نفس فاعل قادر بنانا یہ جبر کو مستلزم ہے، اور داعی اور قدرت کا نفس ہونا یہ فعل کے وجود کو مستلزم ہے کہ یہ جبر ہے۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معنی حق ہے جس کے ابطال کی کوئی دلیل نہیں اور ابو الحسین بصری جیسے سمجھ دار معتزلہ اس معنی کو تسلیم کرتے ہیں اور مانتے ہیں کہ نفس داعی اور قدرت کے وجود کے ساتھ فعل کا وجود واجب ہے۔اس کتاب والے نے یہی طریق اختیار کیا ہے، اسے جبر کی اس تفسیر سے انکار ممکن نہیں ۔ اسی لیے ان امور میں ابو الحسین کی طرف تناقض کو منسوب کیا گیا ہے۔ کیونکہ جب وہ دوسرے سمجھ دار معتزلہ اس بات کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ داعی اور قدرت کے ساتھ فعل کا
[1] صحیح مسلم: ۱؍ ۴۸ ۔ ۴۹۔ کتاب الایمان، باب الامر بالایمان باللّٰہ تعالی۔