کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 14
کہتے ہیں ۔ یہ شیعوں کا سب سے بہتر فرقہ ہے۔ انہیں صالحیہ بھی کہتے ہیں ۔ کیونکہ یہ حسن بن صالح بن حی الفقیہ کی طرف منسوب ہیں ۔ [1] اب ان زیدیہ میں سے کوئی تو قدر کے بارے میں اہلِ سنت کے قول پر ہے اور کوئی قدریہ کے قول پر ہے۔ بندوں کے افعال کا فاعل کون ہے؟ دوسری وجہ :....یہ کہا جائے گا کہ: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ: ’’ اہل سنت کے نزدیک بندہ کفر و معاصی کے ارتکاب میں بے قصور ہے۔‘‘ قطعی طور سے بے بنیاد ہے۔ تقدیر کا عقیدہ رکھنے والے جمہور اہل سنت کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ بندہ اپنے افعال کا حقیقی فاعل ہے اور وہ قدرت و استطاعت سے بہرہ ور ہے، وہ طبعی اسباب کی تاثیر کا انکار نہیں کرتے۔ بلکہ عقلی و نقلی دلائل کی بنا پر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ہواؤں کے ذریعہ بادل کو پیدا کرتے پھر بادل سے پانی اتارتے اور پانی سے فصلیں پیدا کرتے ہیں ، اﷲ تعالیٰ سبب اور مسبب دونوں کا خالق ہے۔اور وہ ہر گز یہ بھی نہیں کہتے کہ مخلوقات میں موجود طبائع اورقویٰ کی کوئی تاثیر نہیں ۔بلکہ وہ اس کا اقرار کرتے ہیں کہ اس کی لفظی اور معنوی تاثیر ہے۔ حتیٰ کا اثر کا لفظ کتاب اللہ میں بھی آیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَ نَکْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَ اٰثَارَہُمْ ﴾ (یس ۱۲) ’’ اور ہم لکھ رہے ہیں جو عمل انھوں نے آگے بھیجے اور ان کے چھوڑے ہوئے نشان بھی۔‘‘ اگرچہ وہاں پر تاثیر کا معنی اس آیت میں وارد لفظ کی نسبت زیادہ عام ہے۔ مگر پھر بھی وہ یہ کہتے ہیں کہ: یہ تاثیر؛ مسببات میں اسباب کی تاثیر کے باب سے ہے۔ باوجودیکہ باری تعالیٰ خالق اسباب ہیں اس کے باوصف ایک اور سبب کا وجود ناگزیر ہے جو اس کا شریک ہو اور اس کے دوش بدوش ایک معارض کی بھی ضرورت ہے جو اسے روک دے اور اﷲ کے پیدا کرنے کے باوجود اس کے اثر کو تکمیل پذیر نہ ہونے دے الایہ کہ اﷲتعالیٰ دوسرے سبب کو پیدا کر کے موانع کا ازالہ کر دے۔ شیعہ مصنف نے جو قول نقل کیا ہے اس کے قائل قدرکو ثابت ماننے ہیں جیسے امام اشعری رحمہ اللہ اور ان کے ہم نوااور موافقت رکھنے والے فقہاء جو کہ امام مالک ؛ امام شافعی اور امام أحمد رحمہم اللہ کے اصحاب میں سے ہیں ۔ اشاعرہ مخلوقات میں قُوی و طبائع کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ:’’ اﷲ تعالیٰ ان قوی کے ساتھ فعل کو انجام نہیں دیتے البتہ ان قوی کے ہوتے ہوئے وہ فعل انجام پذیر ہوتا ہے۔‘‘ اشاعرہ کہتے ہیں کہ بندے کی قوت افعال میں مؤثر نہیں ہے۔ امام اشعری رحمہ اللہ اس سے بڑھ کر یہ کہتے ہیں کہ بندہ اپنے فعل کا فاعل نہیں ، بلکہ اس کا فاعل حقیقی اﷲ تعالیٰ ہے۔ البتہ بندہ اپنے فعل کا کا سب ہے،جمہور اہل سنت کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ بندہ اپنے افعال کا حقیقی فاعل ہے۔ افعال باری تعالیٰ میں حکمت : رہا یہ مسئلہ کہ شیعہ مصنف نے جو غرض اور حکمت کی نفی کا عقیدہ نقل کیا ہے؛ کہ بیشک اللہ تعالیٰ بندوں کی مصلحت کے
[1] بتریہ :....کثیّر النواء الابتر کے اصحاب جو مذہب میں صالحیہ کے ہم نواء ہیں ۔ ان دونوں کی تفصیل کے لیے دیکھیں : فرق الشیعہ للنوبختی، ص: ۳۴، ۳۵، ۷۷۔