کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 138
﴿فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًاo﴾ (الذاریات: ۲)
’’پھر ایک بڑے بوجھ (بادل ) کو اٹھانے والی ہیں ۔‘‘
اور ہوا بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری منتقل کرتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿وَ ہُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ حَتّٰٓی اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ﴾ (الاعراف: ۵۷)
’’اور وہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت سے پہلے بھیجتا ہے، اس حال میں کہ خوش خبری دینے والی ہیں ، یہاں تک کہ جب وہ بھاری بادل اٹھاتی ہیں تو ہم اسے کسی مردہ شہر کی طرف ہانکتے ہیں ۔‘‘
اور بتلایا کہ یہ ہوا ہر شے کو تباہ بھی کرتی ہے اور بتلایا کہ پانی چڑھ آیا کرتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
﴿اِِنَّا لَمَّا طَغٰی الْمَآئُ حَمَلْنٰکُمْ فِی الْجَارِیَۃِo﴾ (الحاقۃ: ۱۱)
’’بلاشبہ ہم نے ہی جب پانی حد سے تجاوز کرگیا، تمھیں کشتی میں سوار کیا۔‘‘
بلکہ رب تعالیٰ نے ان چیزوں کی بابت ان سے بھی زیادہ بلیغ باتوں کی خبر دی ہے، وہ ان اشیاء کا تسبیح و سجدہ کرنا ہے: چنانچہ ارشاد ہے:
﴿اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ القمر وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَالدَّ وَآبُّ وَ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ وَ کَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْہِ الْعَذَابُ﴾ (الحج: ۱۸)
’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ، اسی کے لیے سجدہ کرتے ہیں جو کوئی آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور بہت سے لوگ۔ اور بہت سے وہ ہیں جن پر عذاب ثابت ہوچکا۔‘‘
یہ تفصیل اس بات سے مانع ہے کہ اسے اس بات پر محمول کیا جائے کہ مراد ان کا مخلوق ہونا اور اپنے خالق پر دلالت کرنے والا ہونا ہے اور یہ کہ مراد ان کا زبانِ حال سے اس کی شہادت دینا ہے کہ یہ تو سب انسانوں میں عام ہے۔ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ وَ اَلَنَّالَہُ الْحَدِیْدَo﴾ (سبا: ۱۰)
’’اے پہاڑو! اس کے ساتھ تسبیح کو دہراؤ اور پرندے بھی اور ہم نے اس کے لیے لوہے کو نرم کر دیا۔‘‘
اور فرمایا:
﴿اِِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِِشْرَاقِo وَالطَّیْرَ مَحْشُورَۃً کُلٌّ لَہٗ اَوَّابٌo﴾ (صٓ: ۱۸۔۱۹)
’’بے شک ہم نے پہاڑوں کو اس کے ہمراہ مسخر کردیا، وہ دن کے پچھلے پہر اور سورج چڑھنے کے وقت تسبیح