کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 13
زیدیہ خلفائے ثلاثہ کے اقرار ہیں ۔ حالانکہ یہ شیعہ میں سے ہیں ۔ ان میں قدریہ اور غیر قدریہ اور غیر قدریہ دونوں ہیں ۔ یہ زیدیہ امامہ سے بہتر ہیں ، اور امامیہ کے زیادہ مشابہ جارودیہ ہیں ۔ جو ابو الجارود [1] کے پیروکار ہیں ۔ جن کا یہ عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی نام لیے بغیر وصف ذکر کر کے نص کہی ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جناب علی رضی اللہ عنہ امام تھے، اور لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کی اقتداء چھوڑ کر گمراہ اور کافر ہو گئے تھے۔ پھر حسن رضی اللہ عنہ امام ہیں اور پھر حسین رضی اللہ عنہ ۔
پھر ان میں سے کوئی اس بات کا قائل ہے کہ جناب علی رضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ کی امامت پر نص کہی، انہوں نے حسین کی امامت پر پھر یہ امامت دونوں کی اولاد میں شوری تھی۔ سو ان میں سے جو بھی داعی الی اللہ نکلا اور وہ عالم و فاضل بھی ہے سو وہ امام ہے۔
زیدیہ کا دوسرا فرقہ سلیمانیہ ہے۔ یہ سلیمان بن جریر کے اصحاب ہیں ۔ جن کے نزدیک امامت یہ شوری ہے، اور یہ دو نیک مسلمانوں سے بھی قائم ہو سکتی ہے، اور بسا اوقات یہ مفضول میں بھی پائی جاتی ہے۔ چاہے فاضل ہر حال میں افضل ہی ہو، اور یہ حضرات شیخین ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے لیے امامت کو ثابت کرتے ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ امامت خطا تھی۔ البتہ تاویل کی وجہ سے صاحبِ امامت فاسق نہ تھا۔ [2]
جبکہ دوسرے قول کے قائلین بتریہ ہیں ، یہ کُثَیّر النواء کے اصحاب ہیں ، ان کے بتریہ نام کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کا لقب ابتر تھا۔ ان کے نزدیک جنابِ علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل الخلائق اور امامت کے سب سے زیادہ اہل تھے۔ البتہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی بیعت خطا نہ تھی۔ کیونکہ جنابِ علی رضی اللہ عنہ ان دونوں کی خاطر امامت ترک کر دی تھی۔ البتہ یہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے قتل کے بارے میں توقف کرتے ہیں ، اور انہیں کافر نہیں کہتے۔ جیسا کہ سلیمانیہ
[1] یہ زیادہ بن ابی زیاد منذر ہمدانی خراسانی العبدی ہے۔ کنیت ابو نجم تھی۔ کبھی نہدی اور ثقفی بھی کہلاتا تھا۔ ۱۵۰ھ سے ۱۶۰ھ کے درمیان وفات پائی۔ یہ زیدیہ میں سے جارؤدیہ فرقہ کا بانی تھا۔ شہرستانی نے نقل کیا ہے کہ جعفر صادق نے اس کا نام سرحوب رکھا اور باقر نے اس کی یہ تفسیر بیان کی ہے کہ سرحوب اندھے شیطان کو کہتے ہیں جو سمندر میں رہتا ہے۔ نوبختی کے بقول ابن جارود نگاہ کا بھی اندھا تھا اور دل کا بھی اندھا تھا۔ جارودیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنابِ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی نص ارشاد فرمائی ہے۔ لہٰذاحضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امام تھے اور لوگ انہیں چھوڑنے کی بناء پر کافر اور گمراہ ہو گئے تھے۔ ان کے نزدیک علی رضی اللہ عنہ کے بعد حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ امام ہیں ۔ پھر امامت اولاد حسین میں شوری ہے۔ غرض ان کے اور بھی متعدد گمراہانہ عقائد ہیں ۔ ان کی تفصیل کے لیے دیکھیں : فرق الشیعہ للنوبختی، ص: ۷۵ ۔ ۷۸۔ (۱۳۷۹؍۱۹۵۹۔ ط۔ حیدریہ النجف۔)
[2] سلیمانیہ یا جریریہ: یہ سلیمان بن جریر العرقی کے اصحاب ہیں ۔ خلیفہ منصور کے زمانہ میں ظاہر ہوئے۔ ان کے عقائد اس سے بھی زیادہ ہیں جو امام ابن تیمیہ نے ذکر کیے ہیں ، سلیمان نے دورِ عثمانی میں ہونے والے واقعات کی بناء پر جنابِ عثمان رضی اللہ عنہ پر طعن کیا ہے اور ان واقعات کی آڑ میں معاذ اللہ انہیں کافر تک کہا ہے، اور اس نے جناب زبیر، جناب طلحہ رضی اللہ عنہما اور سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے جنابِ علی رضی اللہ عنہ سے قتال پر اقدام کی وجہ سے معاذ اللہ انہیں بھی کافر کہا ہے۔ پھر اس نے متعدد امور میں خود امامیہ رافضہ پر بھی طعن کیا ہے۔ ان کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیں : فرق الشیعہ للنوبختی، ص: ۳۰، ۸۵، ۸۷۔