کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 11
کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) مصنف: شیخ الاسلام ابن تیمیہ پبلیشر: دار المعرفہ ترجمہ: پیرزادہ شفیق الرحمٰن شاہ الدراوی اللہ تعالیٰ کی قدرت کے متعلق رافضی الزام پر ردّ فصل:....رافضی کہتا ہے: ’’ بعض لوگ اس طرف گئے ہیں کہ رب تعالیٰ میں بندوں جیسی بھی قدرت نہیں ۔‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ : یہ مسئلہ دقیقِ کلام میں سے ہے، اہلِ سنت کے خصائص میں سے نہیں ، اور نہ متفق علیہ خلفاء کے ماننے والوں کا ہے۔ بلکہ یہ بعض قدریہ کا قول ہے۔ رہے قدر کو ثابت کرنے والے اہلِ سنت تو ان میں سے کوئی اس کا قائل نہیں ۔ یہ قدریہ کے ان شیوخ کا قول ہے جو توحید اور عدل کے مسائل میں ان متاخرین امامیہ کے بھی شیوخ ہیں ۔ کیونکہ ان متاخرین امامیہ جیسے ابن نعمان، موسوی المرتضیٰ اور ابوجعفر طوسی وغیرہ۔ [1] میں سے جس نے بھی عدل اور توحید کے بارے میں جو کچھ کہا ہے، وہ معتزلہ کی کتابوں سے ماخوذ ہے۔ بلکہ اکثر عبارتیں تو من وعن ہیں ۔ البتہ بعض عبارات میں معمولی تصرف ہے۔ اسی طرح صفات اور قدر سے متعلق آیات کی تفسیر کا حال بھی یہی ہے۔ کہ وہ معتزلہ کی تفسیر سے منقول ہے۔ جیسے الاصم[2]، جبائی[3]، عبدالجبار بن احمد الہمدانی[4]، رمانی [5]ابو مسلم اصبہانی[6] وغیرہ کہ متقدمین امامیہ میں سے کسی ایک سے بھی ان اقوال میں سے ایک حرف بھی منقول نہیں ۔ نہ تو اصولِ عقلیہ میں اور نہ تفسیر قرآن میں ۔ امامیہ کے متقدمین کا اپنے آئمہ پر ان متاخرین سے زیادہ اجماع تھا۔ چنانچہ وہ لوگ جعفر صادق کے اقوال کو زیادہ لیتے تھے۔ تب پھر اگر تو ان متاخرین کے اقوال حق ہیں تو جملہ متقدمین گمراہ ہیں اور اگر ان متقدمین کے اقوال حق ہیں ۔ یہ متاخرین سب کے سب گمراہ ہیں ۔
[1] ابن نعمان: یہ محمد بن محمد بن نعمان بن عبدالسلام بغدادی کا ہے جس کا لقب شیخ مفید ہے، اور مرتضیٰ: یہ علی بن حسین بن موسیٰ بن محمد ہے، اور طوسی: یہ ابوجعفر محمد بن حسن بن علی ہے، جو امامیہ کا شیخ اور رئیس الطائفہ ہے۔ ان تینوں کا ترجمہ گزر چکا ہے۔ [2] اس کا نام ابو بکر عبدالرحمن بن کیسان الاصم ہے؛ قاضی عبدالجبار نے اپنی کتاب ’’ فضل الاعتزال و طبقات المعتزلۃ ‘‘ میں اس کا ذکر چھٹے طبقہ کے معتزلہ میں کیا ہے (ص ۲۶۷) [3] جبائی کا پورا نام ابو علی محمد بن عبدالوہاب ہے؛ فرقہ جبائیہ اسی کی طرف منسوب ہے۔ قاضی عبدالجبار نے اپنی کتاب ’’ فضل الاعتزال و طبقات المعتزلۃ ‘‘ میں اس کا ذکر آٹھویں طبقہ کے معتزلہ میں کیا ہے (ص ۲۸۷) [4] قاضی ابو الحسین عبدالجبار بن أحمد الہمذانی أسد آبادی ؛ متوفی ۴۱۵ھ ؛ اس کے حالات زندگی کے لیے دیکھیں : فضل الاعتزال ص ۱۲۱۔ اس پر ڈاکٹر عبدالکریم عثمان نے ’’ قاضی القضاۃ عبدالجبار بن احمدالہمذانی‘‘ کے نام سے کتاب بھی تألیف کی ہے۔ [5] ابو الحسن علی بن عیسی بن علی بن عبداللہ الرمانی ؛ معتزلہ کے مفسرین میں سے تھے ؛اور بہت بڑے نحوی تھے۔ ۲۹۶ ھ میں بغداد میں پیدا ہوئے؛ اور ۳۸۴ھ میں یہیں پر وفات پائی۔ دیکھیں : ’’ فضل الاعتزال و طبقات المعتزلۃ ‘‘(ص ۳۳۳) بغیۃ الوعاۃ للسیوطی ۳۴۴ ؛ المنیۃ والأمل لابن المرتضی ص ۶۵۔ [6] ابو مسلم محمد بن بحر الاصفہانی ؛قاضی عبدالجبار نے اس کا ذکر دو مرتبہ کیا ہے۔ ’’ فضل الاعتزال و طبقات المعتزلۃ ‘‘ (ص ۲۹۹۔ اور ص ۳۲۳)