کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 106
اس کا جواب یہ ہے کہ جسم واحد کا دو جگہوں میں ہونا بالذات محال ہے۔ لہٰذا یہ دونوں آنِ واحد میں ہونے ممکن نہیں ۔ اور یہ کوئی چیز نہیں ہے کہ یہ کہا جائے: کہ یہ مقدر ہے بلکہ یہ ایک بے حقیقت بات ہے اور کچھ بھی نہیں ۔ بلکہ یہ ایک ایسی بات ہے جس کا ذہن تصور کرتا ہے جیسے کہ ذہن رب تعالیٰ کی نظیر کے خارج میں پائے جانے کا تصور کرتا ہے تاکہ خارج میں اس کے امتناع کا حکم لگائے۔ وگرنہ ممکن نہیں کہ ذہن خارج میں اس کی نظیر کا تصور کرے۔ لیکن ذہن محل واحد میں لون اور طعم کے اجتماع کا تصور کرتا ہے، جیسے سفید حلوہ اور سفید رنگ وغیرہ۔ پھر ہی ذہن اس بات کا بھی تصور کرتا ہے کہ کیا سفیدی اور سیاہی محل واحد میں جمع ہو سکتی ہے۔ جیسے کہ لون اور طعم ایک محل میں جمع ہو جاتے ہیں ۔ تو وہ جان لیتا ہے کہ یہ اجتماع خارج میں ممتنع ہے اور جان لیتا ہے کہ یہ بات تو ممکن ہے کہ زید مشرق میں اور عمرو مغرب میں ہو۔ پھر وہ ذہن میں یہ سوچتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ زید فی نفسہ دو مکانوں میں بیک وقت موجود ہو۔ جیسا کہ وہ اور عمرو دو جگہوں میں تھے؟ تو وہ جان لیتا ہے کہ یہ ممتنع ہے۔
یہ اس شخص کا کلام ہے جو ارادہ کو دو قسمیں قرار دیتا ہے اور وہ دونوں میں سے ایک نوع میں اور محبت و رضا میں فرق کرتا ہے۔ البتہ جو اس سب کو ایک نوع قرار دیتا ہے وہ دو باتوں کے بیچ میں ہوتا ہے۔
٭ اگر تو وہ محبت و رضا کو اس نوع میں سے قرار دیتا ہے تو اسے مذکورہ شنیع محظورات لازم آتے ہیں ۔
٭ اگر وہ محبت و رضا کو وہ نوع قرار دیتا ہے ؛جو ارادہ کو مستلزم نہیں ہوتی اور کہتا ہے کہ کبھی وہ اس چیز کو بھی پسند کرتا ہے جس کا وہ کسی صورت بھی ارادہ نہیں کرتا اور اس وقت اس کا ’’لا یریدہ‘‘ کے قول سے مقصود یہ ہوتا کہ اس نے اس کے کون وجود کا ارادہ نہیں کیا۔ وگرنہ وہ اس کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ ہے۔
سو اس نے ارادہ کو ہی خلق کی مشیئت قرار دیا ہے اور یہ اگرچہ سنت کی طرف منسوب ایک جماعت کا قول ہے جو امام مالک امام شافعی اور امام احمد کے اصحاب فقہاء میں سے ہیں ۔ لیکن یہ کتاب و سنت کے استعمال کے خلاف ہے۔ تب پھر اس کے ساتھ تراع لفظی ہو گا اور لفظی تراعات میں دوستی کا زیادہ مستحق وہ ہے جس کا لفظ قرآن و سنت کے موافق ہو۔
یہ بات واضح ہو چکی ہے قرآن نے اس نوع کو مراد قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس بات پر اطلاق کی حاجت نہیں کہ اللہ اس بات کا حکم دیتا ہے جس کا ارادہ نہیں کرتا۔ پھر یہ بھی واضح ہو گیا کہ ارادہ کی دو قسمیں ہیں اور یہ کہ وہ اس بات کا بھی امر دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اس بات کا بھی امر دیتا ہے جسے پیدا کرنے کا وہ ارادہ نہیں کرتا اور اس بات کا حکم دیتا ہے جس کی بابت وہ پسند کرتا ہے اور اسے محبوب ہے کہ اس کے بندے وہ کام کریں ۔
اگر ایک آدمی کہتا ہے: ’’اللہ کی قسم! میں وہ کروں گا جو اللہ مجھ پر واجب کرے گا یا وہ اسے میرے لیے پسند کرتا ہے ان شاء اللہ‘‘ تو فقہاء کا اتفاق ہے کہ وہ حانث نہ ہو گا اور اگر اس نے یہ کہا: ’’اللہ کی قسم! میں وہ کروں گا جو اللہ مجھ پر واجب کرے گا۔ اگر اللہ کو وہ محبوب یا پسند ہو گا۔‘‘ تو وہ نہ کرنے کی صورت میں بالا تراع حانث ہو جائے گا۔ یہیں سے مکذبین قدر کی دلیل کا بطلان ظاہر ہو گیا۔ کیونکہ جب وہ یہ کہتا ہے کہ ہر عاقل جو اس بات کا امر کرے جو وہ چاہتا نہیں اور اس بات