کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 100
سو رب تعالیٰ کفار کو ایک بات کا حکم دیتا ہے جسے کے بجا لانے میں ان کی مصلحت ہوتی ہے۔ لیکن وہ اس امر میں ان کی معاونت نہیں کرتا اور نہ اس کو پیدا فرماتا ہے۔ جیسا کہ اس نے متعدد ایسے امور کو پیدا نہیں کیا کہ حکمت و مصلحت کا کمال ان کے پیدا نہ کرنے میں ہی تھا۔
جب مخلوق یہ دیکھتی ہے کہ رعایا کے ایک فرد کی مصلحت اس میں ہے کہ وہ تیر اندازی اور اسباب مملکت کو سیکھے تاکہ ملک کو حاصل کر کے جبکہ خود اپنے بچے مصلحت وہ اس میں دیکھتا ہے کہ وہ شخص قوی نہ بنے کہ مبادا اس کے بچے سے اس کا ملک چھین لے۔ یا اس پر چڑھ دوڑے۔ تو ہو سکتا ہے کہ وہ اس شخص کو تو وہ حکم دے جس میں اس کی مصلحت ہو، جبکہ خود وہ کرے جس میں اس کی اولاد اور رعایا کی مصلحت ہو۔
غرض مصالح و مفاسد نفوس کے مناسب و منافی ہوا کرتے ہیں ۔ پس مامور کے مناسب وہ ہے جس کا اس کے ناصح نے اسے حکم دیا ہے اور آمر کے مناسب یہ ہے کہ اس مامور کو اس کی مراد حاصل نہ ہو۔ کیونکہ اس میں آمر کے مصالح اور مرادات کی تفویت ہوتی ہے۔
یہ نہایت عمدہ نکتہ ہے جسے وہی ثابت کرتا ہے جو رب تعالیٰ کے خلق و امر میں اس کی حکمت کو جانتا ہو اور وہ رب تعالیٰ کو بعض امور کے ساتھ محبت و فرح کے ساتھ متصف کرتا ہو، اور یہ کہ کبھی محبوب کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔ مگر جبکہ جب اس کی ضد کو دفع کرے اور اس کے لازم کو موجود کرے۔ کیونکہ اجتماعِ ضدین متمنع ہے اور ملزوم کا وجود لازم کے وجود کے بغیر متمنع ہے۔
اسی لیے رب تعالیٰ ہر حال میں محمود ہے، اسی کی بادشاہی ہے، اسی کی تعریف ہے دنیا میں بھی، اور آخرت میں بھی۔ حکم اسی کا ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
سو جو بھی موجود ہے، وہ اللہ اس پر محمود ہے اور وہ چیز جو معلوم اور مذکور ہے وہ اس پر محمود ہے اور وہ اپنی ذات میں اپنے جن اسماء و صفات کے ساتھ متصف ہے، اس پر اس کی حمد ہے اور اس کی حمد ہے اس کے خلق و امر پر۔ وہ اپنی ہر آفرینش پر محمود ہے چاہے اس میں بعض لوگوں کے لیے ایک نوع کا ضرر ہو۔ کیونکہ اس میں اس کی حکمت ہے اور وہ اپنے ہر امر میں محمود ہے، کیونکہ اس میں ہدایت اور بیان ہے۔ اسی لیے اس کی حمد ہے آسمانوں بھر، اور زمینوں بھر اور درمیان کی سب فضاؤں میں اور اس کے بعد جو اس نے چاہا، اس کے بقدر۔ کہ یہ سب اس کی مخلوق ہے اور اس کے بعد وہ جو بھی چاہے گا وہ اس کی مخلوق ہو گی اور وہ اپنی ہر آفرینش پر محمود ہے۔
اب مخلوق میں ذکر کی گئی گذشتہ مثالیں اگرچہ ان کی نظیر رب کے حق میں نہیں ذکر کی جاتی۔ لیکن یہاں یہ مقصود ہے کہ حکیم مخلوق میں یہ بات ممکن ہے کہ وہ غیر کو ایک بات کا امر کر کے خود اس پر اعانت نہ کرے۔ تو خالق و مالک اپنی حکمت کے اس بات کا زیادہ مستحق ہے سو جس کو اس نے امر دیا اور فعل مامور میں اس کی اعانت بھی کی۔ تو اس مامور بہ سے اس کی خلق اور امر متعلق ہو گیا اور اس نے اس کی آفرینش اور محبت کو چاہا۔ سو وہ جہت خلق اور جہت امر دونوں اعتبار سے مراد ہوا