کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 774
مختلف ہے جو ان جھوٹے اور کذاب روافض منافقین و مرتدین اور کفار کے بھائیوں نے گھڑ لیے ہیں جو اللہ کے دشمنوں سے تو دوستی رکھتے ہیں ؛ مگر اس کے دوستوں سے دشمنی رکھتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ او ران کے اعوان و انصار اس میں سب سے زیادہ کفار و منافقین و مرتدین سے جہاد کرنے میں سب سے زیادہ سخت تھے۔ ان ہی کی شان بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗٓ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ یُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ﴾ [المائدۃ ۵۴] ’’تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ایسی قوم کو لائے گا جو اللہ کی محبوب ہوگی اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتی ہوگی وہ نرم دل ہونگے مسلمانوں پر سخت اور تیز ہونگے کفار پر، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ بھی نہ کریں گے یہ ہے اللہ تعالیٰ کا فضل جسے چاہے دیدے۔‘‘ آپ کے اعوان و انصار اس امت کے سب سے بہترین اور افضل ترین لوگ تھے۔ یہ بات سلف و خلف سب میں معلوم ہے ۔ مہاجرین و انصار کے بہترین لوگ آپ کو محبت میں دوسروں پر مقدم رکھتے تھے۔ اور آپ کے حق کا خیال رکھا کرتے تھے ۔ اور آپ کو اذیت دینے والوں سے آپ کا دفاع کرتے تھے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ :انصار کے امراء دو لوگ ہیں : حضرت سعد بن معاذ او رسعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما ۔ ان دومیں سے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ زیادہ افضل ہیں ۔ صحیح حدیث میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ سعد کی موت پر اللہ تعالیٰ کا آپ کی روح آنے کی خوشی میں کانپ اٹھا تھا۔‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود آپ کے جنازہ کو اپنے کندھوں پر اٹھایا تھا۔ جب آپ نے بنی قریظہ کے بارے میں فیصلہ کیا تو اللہ کے دین میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہیں کی ۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ یقیناً آپ نے وہ فیصلہ کیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر کیا ہے ۔‘‘[تخریج گزرچکی] یہ بات معروف ہے کہ افک کے معاملہ میں آپ او رآپ کے چچا زادحضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اورآپ کی بیٹی کے زبردست حمایتی تھے۔ فتح مکہ کے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو مہاجرین کے سردار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے دائیں تھے۔ اورانصار کے سردار حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ آپ کی بائیں جانب تھے۔ اس لیے کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اس سے پہلے غزوہ خندق اور بنو قریظہ کافیصلہ کرنے کے بعد وفات پاچکے تھے۔ جب آیت تیمم نازل ہوئی تو حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اے آل ابی بکر ! یہ آپ کی پہلی برکت نہیں ہے۔ جب بھی آپ کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش آیا جسے آپ ناپسند کرتی تھیں ‘ مگر اللہ تعالیٰ نے اس میں تمہارے لیے کشادگی پیدا کردی؛ او راسے مسلمانوں کے لیے باعث برکت بنا دیا۔‘‘ حضرت عمر اورحضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما او ران کے امثال بہترین مہاجرین صحابہ بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بڑے اعوان و انصار میں سے تھے۔یہ لوگ تو حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے افضل تھے جو کہ آپ کی بیعت سے پیچھے رہے۔ افک کے
[1] الحدیث بِرِوایاتِہِ المختلِفۃِ عن سہلِ بنِ سعد الساعِدِیِ رضِی اللہ عنہ فِی البخاری ۱؍۱۳۸۔ِکتاب الأذانِ، باب من دخل لِیؤم الناس فجاء الِإمام الأول۔مسلِم۱؍۳۱۶؛ کتاب الصلاِۃ، باب تقدِیمِ الجماعِۃ من یصلِی بِہِم۔