کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 773
ایک ر وایت میں ہے کہ اہل قباء کا آپس میں جھگڑا ہوگیا اور انہوں نے ایک دوسرے پر سنگ باری کی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی گئی تو آپ نے فرمایا: ’ ’ہمیں لے چلو ‘ ان کے مابین صلح کراتے ہیں ۔‘‘ ایک روایت میں ہے : نماز کا وقت آگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف نہیں لائے۔یہ حدیث سب سے صحیح ترین حدیث ہے۔ اس کی صحت پر محدثین اور اہل علم کا اتفاق ہے اورعلماء میں اسے مقبولیت حاصل ہے۔[1] اس روایت میں یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجود گی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عصر کی نماز پڑھائی؛ یہی وہ درمیانی نماز ہے جس کی حفاظت کا حکم قرآن میں بطور خاص دیا گیا ہے۔جب صحابہ کرام کو علم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مصروف ہیں ۔ آپ اہل قباء میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے تھے ۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کا بھی علم تھا کہ آپ ایسے احوال میں کسی ایک کو امام بنالینے کا حکم دیا کرتے تھے۔ جیساکہ غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی میں نماز فجر کے لیے صحابہ کرام نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کو آگے بڑھا دیا تھا۔ یہ اس وقت ہوا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے اور واپسی میں تأخیر ہوگئی۔ اس وقت آپ پر اون کا ایک جبہ تھا۔ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہی مؤذن تھے جو دوسروں سے زیادہ ان امور کے جاننے والے تھے۔آپ نے ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے نماز پڑھانے کے لیے کہا تھا۔ تو آپ نے نماز پڑھا دی تھی۔ اور خصوصاً جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں فرما کر گئے تھے۔ صحیحین میں حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو عمرو بن عوف کے مابین جھگڑے کی خبر پہنچی توآپ ظہر کے بعد ان کے درمیان صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے ۔آپ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ : اگر نماز کا وقت ہوگیا اور میں نہ آیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دینا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ....۔‘‘ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے تو آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اشارہ کیا کہ وہ نماز کو پورا کریں ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ ادب کے راستے پر گامزن ہوتے ہوئے واپس پیچھے ہٹ گئے۔ اس لیے کہ آپ جانتے تھے آپ کایہ حکم حکم ِ عزت و احترام و اکرام ہے ؛ اس کا ماننا لازمی یا واجب نہیں ۔ اور نہ ہی اس کے نہ ماننے میں نافرمانی کا کوئی پہلو ہے۔ پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی موجود گی میں اور بحالت صحت آپ کو اس نماز کے پورا کرنے کے لیے امام برقرار رکھا جو آپ شروع کرچکے تھے‘ اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی؛ جیسا کہ غزوہ تبوک کے موقعہ پر فجر کی ایک رکعت حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے پیچھے پڑی ؛ او ردوسری رکعت کو پورا کرلیا۔ تو پھر یہ کیسے گمان کیا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیماری کی حالت میں خودآپ کو امامت پر مامور کرکے پھر باہر نکلیں کہ آپ کو لوگوں کی امامت سے منع کریں ۔ اس سے واضح ہوگیا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا حال اللہ اور اس کے رسول او راہل ایمان کے نزدیک اس سے یکسر