کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 772
پڑھائیں ۔اور آپ کی موجودگی اوربحالت صحت بھی جب آپ نے نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برقرار رکھا۔
صحیحین میں حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو عمرو بن عوف کے درمیان صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے ۔جب نماز کا وقت ہوگیا تو مؤذن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے تو میں اقامت کہوں ؟ فرمایا: ہاں ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو لوگ نماز میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سے گزرتے ہوئے صف میں جا کر کھڑے ہو گئے لوگوں نے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز میں کسی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے۔ جب لوگوں کی تالیاں بہت زیادہ ہوگئیں تو وہ متوجہ ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ تم اپنی جگہ کھڑے رہو۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اللہ کی حمد کی پھر ابوبکر پیچھے ہو کر صف میں برابر آگئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے تشریف لے گئے ۔نماز سے فارغ ہو کر فرمایا: اے ابوبکر! جب میں نے تجھ کو حکم دیا تو تم اپنی جگہ پر کیوں نہ کھڑے رہے؟ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ:’’ ابن قحافہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لوگوں کو نماز پڑھانا مناسب نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’میں نے تم کو کثرت کیساتھ ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے دیکھا ۔ جب تمہیں نماز میں کوئی چیز پیش آجائے تو تم سبحان اللہِ کہو جب سبحان اللہِ کہا جائے گا تو امام متوجہ ہو جائے گا تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے۔‘‘[صحیح مسلم:ح 944]
ایک روایت میں ہے کہ:’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفوں سے نکلتے ہوئے پہلی صف میں آکر کھڑے ہو گئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ الٹے پاؤں پیچھے آگئے۔‘‘
بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے:[ جب نماز کا وقت ہوگیا] تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا :اے ابوبکر ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تاخیرہوگئی ہے اور نماز کا وقت ہوگیا ہے ؛ کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے تو میں اقامت کہوں ؟ فرمایا: ہاں ! اگر آپ چاہتے ہیں تو۔‘‘
ایک روایت میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ اے لوگو! تمہیں کیا ہوگیا ہے جب نماز میں کوئی ضرورت پیش آتی ہے تو تم تالیاں بجاتے ہو ؛ بیشک تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے۔ جب تمہیں نماز میں کوئی چیز پیش آجائے تو تم سبحان اللہِ کہو ؛ اس لیے کہ جب بھی کوئی سبحان اللہِ سنے گا تو اس طرف متوجہ ہو جائے گا۔‘‘
پھر فرمایا: اے ابوبکر! جب میں نے تجھ کو اشارہ کردیا تھا تو تم لوگوں کی امامت کراؤ؟
ایک روایت میں ہے : یہ عصر کی نماز تھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز پڑھانے کے بعد بنی عمرو بن عوف میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اشارہ کیا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ نماز کو جاری رکھو۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا تھا۔ تو حضرت ابوبکر کچھ دیر کھڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نوازش پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرتے رہے ؛ پھر الٹے پاؤں پیچھے ہٹ گئے۔