کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 771
نے اسے دوبارہ حاضر ہونے کے لیے مامور فرمایا۔ وہ بولی:’’ اگر میں آؤں اور آپ کو موجود نہ پاؤں [تو]۔‘‘(یعنی آپ وفات پا جائیں ) آپ نے فرمایا:’’ اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضری دیجیے۔‘‘[اس کی تخریج گزر چکی ہے]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب (بنابر وحی) معلوم ہوگیا تھاکہ اللہ تعالیٰ اس کام کے لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہی اختیار کریں گے؛اور اہل ایمان آپ کو بالاتفاق خلیفہ تسلیم کرلیں گے[کسی دوسرے کونہیں ]؛اسی لیے آپ نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان اس کا انکار کرتے ہیں ۔‘‘
آپ کی اس رہنمائی و دلالت میں شرعی ادلہ موجود ہیں ۔ اور آپ کو جو علم ہوگیا تھا کہ اللہ تعالیٰ خیرکو آپ کی رضا اور چاہت کے مطابق مقدر کردے گا۔جس سے خلق و امر میں اس کی حکمت قدراً وشرعاً پوری ہوجائے گی۔
اس سے پہلے ہم ذکر کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا اختیار اس امت کے حق میں کئی وجوہات کی بنا پر بہت بہتر تھا۔ اس لیے کہ جب امت نے اپنے علم اوراختیار سے آپ کو یہ منصب تفویض کیا ؛اور ان کو علم تھا کہ اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک آپ ہی اس منصب کے اہل ہیں ۔تو اس میں اتنی شرعی مصلحتیں تھیں جو اس کے بغیر کسی دوسرے ذریعہ سے حاصل نہیں ہوسکتی تھیں ۔ اس سے پہلے ہم ذکر کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا اختیار اس امت کے حق میں کئی وجوہات کی بنا پر بہت بہتر تھا۔ اس لیے کہ جب امت نے اپنے علم اوراختیار سے آپ کو یہ منصب تفویض کیا ؛اور ان کو علم تھا کہ اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک آپ ہی اس منصب کے اہل ہیں ۔تو اس میں اتنی شرعی مصلحتیں تھیں جو اس کے بغیر کسی دوسرے ذریعہ سے حاصل نہیں ہوسکتی تھیں ۔
احکام کا بیان کبھی تو مؤکد نص جلی سے ممکن ہوتا ہے۔اور کبھی سادہ نص جلی سے ۔ اور کبھی ایسی نص سے ممکن ہوتا ہے جس کی وجہ سے بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی مشئیت و حکمت کے مطابق شک بھی ہوجاتا ہے ۔مگر یہ ساری چیزیں بلاغ مبین میں داخل ہیں ۔ اس لیے کہ بلاغ مبین کی شرائط میں سے یہ نہیں ہے کہ کسی ایک کو اس میں کوئی اشکال پیش نہ آئے۔ ایسا ہونا ممکن نہیں ۔ اس لیے کہ لوگوں کے اذہان و عقول میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض علم کو سمجھ لیتے ہیں ؛ اور بعض کو علم کی سمجھ حاصل نہیں ہوسکتی ؛ ایسا یاتو انسان کی سمجھ میں تفریط کی وجہ سے ہوتا ہے یا پھر کمزوری اورعجز کی وجہ سے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری واضح طور پر پہنچادینا تھا۔یعنی بلاغ المبین۔جتنی وضاحت و بیان ممکن تھاوہ ہوگیا۔ وللہ الحمد۔ آپ نے یہ فریضہ انجام دے دیا۔ آپ نے کھول کھول کر اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچادیا؛ اورامت کو ایسے راستے پرچھوڑ دیا جس کی رات بھی اسکے دن کی طرح روشن تھی۔ اس کے بعد کوئی ہلاک ہونے والا ہی گمراہ ہوسکتا ہے۔ کوئی بھی چیز ایسی نہیں تھی جس کی وجہ سے جنت کی قربت حاصل ہوسکتی ہو‘ مگر آپ نے اس امت کو اس کا حکم دے دیا ۔اورکوئی بھی چیز ایسی نہیں تھی جوجہنم کے قریب کرنے والی ہو ‘ مگر آپ نے اس سے منع کردیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی امت کی طرف سے اس سے بہترین و افضل جزاء عطا فرمائے جو کسی بھی امت کی طرف سے اس کے نبی کو ملی ہو۔
مزید برآں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عدم موجودگی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ لوگوں کو نماز