کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 769
اختلاف ہو کر رہنا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میں نے اپنے رب سے تین چیزیں مانگیں ؛پس دو چیزیں مجھ کو عطا کردیں گئیں اور ایک چیز سے مجھے روک دیا۔ میں نے اپنے رب سے مانگا کہ:’’ میری امت کو قحط سالی کے ذریعہ ہلاک نہ کرے ۔‘‘پس یہ مجھے عطاء کردیا گیا اور میں نے اللہ عزوجل سے مانگا کہ:’’ میری امت کو غرق کر کے ہلاک نہ کرے۔‘‘ پس اللہ عزوجل نے یہ چیز بھی مجھے عطا کر دی۔میں نے اللہ عزوجل سے سوال کیا کہ:’’ ان کی آپس میں ایک دوسرے سے لڑائی نہ ہو۔‘‘ تو مجھے اس سوال سے منع کردیا گیا۔‘‘[صحیح مسلم:ح2761] یہی وجہ ہے کہ سیّدناابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :ہر طرح کی بدبختی اس انسان کے لیے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریرمیں حائل ہوا ؛ اس سے اختلاف ختم ہوجاتا۔ ہاں یہ بد بختی اس انسان کے حق میں ہے جوکوئی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں شک اور قدح کرے۔اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ تحریر لکھوا دیتے تو اس کی وجہ سے شک کرنے والوں کا یہ شبہ بھی ختم ہوجاتا۔ اور یہ قول حق کیساتھ کہا جاسکتا کہ : آپ کی خلافت صریح نص جلی سے ثابت ہے۔جب یہ نص موجود نہیں ہے تو پھر یہ بدبختی بغیر کسی افراط و تفریط کے شک کرنے والے انسان کے حق میں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کھل کر پہنچادی تھی۔ اور بہت ساری ادلہ کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی خلافت کے حق دار اور دوسروں سے افضل تھے۔ یہ بدبختی ان اہل تقوی کے حق میں نہیں ہے جو کتاب و سنت سے ہدایت حاصل کرتے ہیں ۔ بلکہ اس کے لیے بد بختی ہے جس کے دل میں مرض پایا جاتا ہے۔جیساکہ قرآن کے وہ احکام جو اللہ تعالیٰ نے منسوخ کیے اورقرآن نازل کیا‘احد کے دن مسلمانوں کو پسپائی ہوئی۔ اور اس طرح کے دیگر واقعات اوردنیاوی مصائب ان لوگوں کے حق میں مصیبت ہیں جن کے دل مرض سے بھرے پڑے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَۃَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَ ابْتِغَآئَ تَاْوِیْلِہٖ﴾ ’’پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لیے۔‘‘ [آل عمران۷] اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اموران لوگوں کے حق میں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ہو‘ ان کے علم و ایمان میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں ۔یہ ایسے ہی ہیں جیسے انسانوں اور جنات کے ساتھ شیاطین کا وجود؛ اللہ تعالیٰ ان کی مخالفت کرنے اوران کے ساتھ مجاہدہ کرنے کی وجہ سے اہل ایمان کے درجات بلند کرتے ہیں ؛ حالانکہ ان شیاطین کا وجود بھی ایک فتنہ اور آزمائش ہوتی ۔بہت سارے لوگوں کو یہ بہکاتے او رگمراہ کرتے ہیں ۔ یہ بالکل اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے: ﴿جَعَلْنَا عِدَّتَہُمْ اِِلَّا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیَسْتَیْقِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَیَزْدَادَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِیْمَانًا ﴾ ’’ اور ہم نے ان کی تعداد صرف کافروں کی آزمائش کے لیے مقرر کی ہے تاکہ اہل کتاب یقین کرلیں اور ایماندار ایمان میں اور بڑھ جائیں ۔‘‘ [المدثر۳۱]
[1] صحیح بخاری:ح306