کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 768
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں دوبار اس بات کاارادہ کیا تھا۔اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا بھی تھا کہ اپنے والد او ر بھائی کو بلا لو۔یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شکایت سے پہلے کا معاملہ ہے۔اس وقت تو آپ نے فرمایا تھا: میرا ارادہ تھا کہ میں ابوبکر کے لیے ایک تحریر لکھوا دوں ۔‘‘ پھر آپ نے جمعرات کے دن اس چیزکا دوبارہ ارادہ کیا تھا۔صحیحین میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:آپ فرماتے ہیں :’’ جمعرات کا دن؛ اور آہ!جمعرات کا دن بھی کیسا تھا؟[ اور پھر اتنا روئے کہ ان کے آنسوں سے سنگریزے تک بھیگ گئے اور پھر کہنے لگے کہ جمعرات کے دن] رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں شدت ہوئی تو آپ نے فرمایا :’’ لکھنے کے لیے کوئی چیز لاؤ کہ میں تمہیں ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہی میں کبھی نہ پڑ سکو گے۔ پھر لوگوں نے اختلاف کیا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اختلاف نہ کرنا چاہیے۔ لوگ بولے کہ آپ ہمیں چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوبارہ پوچھو لوگوں نے پوچھنا شروع کردیا ۔[اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگے]۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے چھوڑ دو میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم لوگ مجھے بلا رہے ہو۔‘‘ اور آپ نے بوقت وفات تین وصیتیں کیں مشرکوں کو جزیرہ عرب سے نکال دینا قاصدوں کو اسی طرح انعام دینا جس طرح میں انعام دیا کرتا تھا اور تیسری وصیت میں خود بھول گیا ۔‘‘[1]
صحیحین میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ[ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا]تو گھر میں بہت سارے افراد موجود تھے‘ ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آؤ میں تمہارے لیے ایک وصیت لکھ دوں تاکہ تم گمراہ نہ ہو۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت تکلیف ہے وصیت لکھنے کی ضرورت نہیں ۔ تمہارے پاس قرآن ہے اور ہمارے لیے کتاب اللہ ہی کافی ہے۔ اس کے بعد گھر میں موجود لوگ جھگڑنے لگے کوئی کہتا تھا: ہاں لکھوا لو اچھا ہے تم گمراہ نہ ہوں گے۔کوئی عمر رضی اللہ عنہ والی بات ہی کہتا۔ کسی نے کچھ اور کہا۔ اور باتیں بہت ہی زیادہ ہونے لگیں ۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سے چلے جاؤ۔‘‘
عبیداللہ بن عبداللہ زہری سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کے بعد افسوس سے کہا :’’یہ کیسی مصیبت ہے کہ جو لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اور آپ کی وصیت لکھوانے کے درمیان حائل کردی۔‘‘ [صحیح بخاری :ح1586]
یہاں سے شک پیدا ہوا ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : ’’ میں تمہارے لیے کتاب لکھوادوں جس کے تم گمراہ نہ ہوگے۔‘‘ یہ مرض میں تکلیف کی وجہ سے کہہ رہے تھے‘ یا یہ وہ حق تھا جس کی اتباع ضروری تھی؟جب شک واقعہ ہوگیا تو مقصود حاصل نہ ہوسکا۔ اور آپ بھی اس تحریر کے لکھوانے سے رک گئے۔اور یہ امت پر آپ کی شفقت و رحمت تھی کہ آپ ان سے اختلاف کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ سے اس کی دعا بھی کیا کرتے تھے۔لیکن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوچکا تھا کہ
[1] صحیح بخاری:ح632