کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد8،7) - صفحہ 767
ہوا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی لوگوں کو نمازیں پڑھایا کرتے تھے۔ ٭ یہ بات ممتنع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم نہ ہوا ہو۔اور نہ ہی مسلمانوں کو اس کی خبر ہوئی ہو۔ بلکہ یہ بات عادتاًممتنع ہے۔تو پتہ چلا کہ آپ کی اجازت سے ہی لوگوں کو نماز پڑھائی جارہی تھی۔جیساکہ صحیح احادیث میں یہ بات ثابت ہے ‘اوریہ بھی ثابت ہے کہ اس بات پر آپ سے تکرار بھی کیا گیا تھا۔ اورکہا گیا: اگر آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور کو نماز پڑھانے کا حکم دیں ؟ تو آپ نے اس تکرار کرنے والے کو ملامت کی۔اور اس بات کو ایک برائی شمار کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے استحقاق کا علم ہونے کے باوجود اس مسئلہ میں تکرار کیا جارہا ہے ۔ جب کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی اس کا مستحق نہیں ۔ امامت ابی بکر رضی اللہ عنہ اور بشارتِ نبوت: بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’اپنے والد اور بھائی کو بلاؤ تاکہ میں انھیں ایک تحریر لکھ دوں ، مجھے ڈر ہے کہ مبادا کوئی خواہش کنندہ اپنی خواہش کا اظہار کرے اور کہنے والا کہے کہ میں خلافت کے لیے موزوں تر ہوں ۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول او ر اہل ایمان ابو بکر رضی اللہ عنہ کے سوا کسی کو خلیفہ تسلیم نہیں کرسکتے۔‘‘[البخاری ۷؍۱۱۹؛ مسلم ۴؍۱۸۵۷]۔ بخاری میں حضرت قاسم بن محمد سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں :حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:’’ہائے میرا سر۔‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اگرتو اسی درد میں مبتلارہ کر مرگئی تو تیرے لیے دعائے مغفرت کروں گااور دعا کروں گا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :’’افسوس ! اللہ کی قسم! میرا تو خیال ہے کہ آپ میرا مرنا پسند کرتے ہیں ۔ اگر ایسا ہوا تو اسکے دوسرے ہی دن آپ اپنے دوسری بیویوں کے ساتھ رات گزاریں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :’’ نہیں بلکہ میں خود بھی درد سر میں مبتلا ہوں ۔ اور میں نے چاہا کہ ابوبکر اور ان کے بیٹے کو بلا بھیجوں اور ان کو وصیت کروں تاکہ کوئی کہنے والا کچھ کہہ نہ سکے اور نہ کوئی آرزو کرنے والا اس کی آرزو کرسکے۔ پھر میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ دوسرے کی خلافت کو ناپسند کرتا ہے اور مومن ہی اس کو نامنظور نہ کریں گے یا یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دفع کرے گا اور مسلمان بھی پسند نہ کریں گے۔‘‘[1] یہ صحیح حدیث ہے۔ اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ کیا تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے لیے ایک تحریر لکھوا دیں ۔ تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ میں ان سے زیادہ حق دار ہوں ۔ پھرفرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان اس کا انکار کرتے ہیں ۔‘‘ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب (بنابر وحی) معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ اس کام کے لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہی اختیار کریں گے؛اور اہل ایمان آپ کو بالاتفاق خلیفہ تسلیم کرلیں گے اور آپ کی بیعت پر راضی ہو جائیں گے، تو آپ نے دستاویز لکھنے کی ضرورت نہ سمجھی ۔ سو ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوری ہوئی جو اللہ اوراس کے رسول اور اہل ایمان کے اختیار پر راضی نہیں ۔ [آپ کی یہ پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔]